برصغیر کے پاک وہند میں دین
اسلام کے فروغ او ر مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح کا قومی فریضہ انجام دینے
والی شخصیات میں حضرت امیر ملت حافظ پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری
قدس کا مقام کئی لحاظ سے ممتاز ومنفرد ہے۔ آپ بیک وقت میدان شریعت وطریقت
اورادب وسیاست کے عدم النظیر شہسوار تھے۔
آپ 1834ء میں علی پور
سیداں ضلع سیالکوٹ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام حضرت پیر
سید کریم شاہ تھا جو خود بھی عارف
با اللہ اور ولی کامل تھے۔ انہوں نے اس
ہونہار بیٹے کی تعلیم وتربیت کا خاطر خواہ بندوبست کیا۔ آپ نے سات سال کی
عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا۔ بچپن سے ہی آپ کی پیشانی پر نورِ ولایت
ظاہر ہوتا تھا اور مجدانہ بزرگی کے آثار نمایاں تھے۔ آپ نے نامور اساتذہ
عصر سے کتب معقول ومنقول ،تفسیر ،فقہ کلام ،میراث ،منطق اور حدیث کی تعلیم
حاصل کرکے سند فضلیت حاصل کی۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں ۔ آپ امام کاملین
قطب زماں بابا جی فقیر محمد چورا ہی قدس سرہ العزیز کے دست حق پرست پر
سلسلہ عالیہ تقشبندیہ میں داخل ہو ئے اور خرقہ خلافت سے نوازے گئے ۔ آپ نے
افغانستان سے راس کماری اور کشمیر سے مدراس اور برما سے ایران تک تبلیغ و
اشاعت اسلام کے سلسلہ میں گرانقد ر خدمات سر انجام دیں اور لا تعداد غیر
مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔برصغیر پاک و ہند میں جا بجا دینی مدارس
،مساجد، سرائیں ، رفاعی ادارے اور علاج معالجے کے لئے ہسپتال تعمیر
کرائے1885ء میں لاہور میں انجمن نعمانیہ کی بنیاد رکھی۔اسی طرح 1900میں
انگریز کے خود کا شتہ پودے مرزا غلام احمد قادیانی نے اعلان نبوت کیا تو
علمائے کرام اور مشائخ عظام نے ختم نبوت کی حقانیت کی تحریک میں پوری
سرگرمی دکھائی ۔ مگر اس سلسلہ میں جو کوششیں امیر ملت پیر سید جماعت علی
شاہ محدث علی پوری نے کیں ،وہ تاریخ کا ایک سنہری باب ہیں ۔آپ نے22مئی
1908کو بادشاہی مسجد میں خطبہ جمعہ میں لاکھوں کے اجتماع میں پیشگوئی کر دی
کہ مرزاغلام احمد کا خدائی فیصلہ ہو چکا ہے اور اللہ کریم اگلے چند دنوں
میں امت مسلمہ کو اس سے نجات عطا فرمائے گا ۔
مسلم یونیورسٹی کے قیام
کے سلسلہ میں چندہ جمع کرنے کی مہم شروع ہوئی تو آپ کی اپیل پر لاکھوں
روپے کا فنڈ جمع ہوگیا اور آپ نے خود بھی کئی لاکھ روپے چندہ دیا۔ 1910ء
میں سلطان عبد الحمید خان خلیفہ وقت نے آپ کے مشورے سے حاجیوں کی سہولت
اور آمد ورفت کے لئے جدہ سے مدینہ منورہ تک حجاز ریلوے لائن کا منصوبہ
شروع کیا۔مارچ 1921میں فیصل آباد (لائل پور) میں خلافت کانفرنس میں تاریخی
خطبہ صدارت دیا اور تحریک خلافت میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ بیسویں صدی کے
تیسرے عشرے کی ابتداء میں ہندوؤں نے مسلمانوں کو مرتد بنانے اور قتل کرنے
کے لئے شدھی تحریک کا آغاز کیا ۔ ہند وؤں کو اسلام کے خلاف نفرت کا درس
دیا جانے لگا ۔اس کے علاوہ ہندوؤں نے جبہ ودستار پوش ملاؤں کے ایک گروہ
کو طمع ولالچ دے کر مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ اس فتنہ کو کچلنے کے
لئے آپ نے ہندستان کے طوفانی دورے کئے اور اپنی جیب خاص سے لاکھوں روپے
صرف کر کے اسلام اور قوم کی لاج رکھ لی ۔ حضرت امیر ملت خود بڑی متحرک فعال
اور حساس طبیعت کے مالک تھے سواد ِ اعظم کی فعال تنظیم کے لئے آپ کی
سرپرستی میں 19-18-17مارچ 1925کو مراد آباد میں پہلی آل انڈیا سنی
کانفرنس بڑی شان و شوکت سے منعقد ہوئی ۔امیر ملت نے اپنے خطبہ صدارت میں
ارشاد فرمایا کہ’’اس میں کوئی کلام نہیں کہ جو برداشت ہمارے مذہب میں ہے وہ
کسی اور مذہب میں نہیں ہے مگر یہ یاد رہے کہ ہم کسی شعائر اسلام کو ترک
کرنے کے لئے کسی حال میں بھی تیار نہیں ہوں گے۔ اس موضوع پر آپ نے تین
گھنٹہ کا طویل خطبہ ارشاد فرمایا ۔1930اپریل میں سارداایکٹ جو کہ ایک غیر
اسلامی قانون اور مداخلت فی الدین تھا آپ نے انگریزکے اس قانون کی بھرپور
مخالفت کی، لہٰذا یہ قانون نافذ ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا ۔ جب 1936میں
قائداعظم محمد علی جناح نے برطانیہ سے واپسی پر مسلم لیگ کی تنظیم نو کی
اور ہندو مسلم دو جداگانہ قوموں کی آواز بلند کی تو برصغیر میں سب سے پہلے
قائد اعظم نے حضرت امیر ملت کے پاس لاہور میں حاضری دی۔ 23مارچ 1940کو
آپ نے قرار داد پاکستان کے موقع پر قائداعظم کو اپنی مکمل تائید و حمایت
کا یقین دلایا اور ان کی ترقی مدارج اور کامیابی کے لئے دعا کی ۔
آل انڈیا بنارس سنی کانفرنس 1945 میں منعقد ہوئی یہ کانفرنس کئی دن جاری
رہی ۔ حضرت امیر ملت صدر تھے اور مولانا نعیم الدین مراد آبادی جنرل
سیکرٹری ،اس کانفرنس نے تحریک پاکستان کی منزل واضح کر دی ۔حضرت امیر ملت
کو 100سال سے زیادہ کی عمرمیں ضعیفی و ناتوانی کے باوجود جب جلسہ گاہ
میں لایا جا رہا تھا تو آپ کو ان باتوں کی خبر ہوگئی ۔ آپ نے کرسی صدارت
پر تشریف فرما ہوتے ہی ارشاد فرمایا کہ حکومت کانگرس اور مخالفین پاکستان
کان کھول کر سن لیں کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ سے پاکستان کی منظوری ہوچکی
ہے اور پاکستان ضرور بن کر رہے گا ۔
عشق رسولﷺ سے آپ ہمہ وقت سر
شار رہتے ۔حضور نبی کریمﷺ کا نام سنتے ہی آپ کی آنکھیں پُرنم ہو جاتی
تھیں۔ 72سے زائد مرتبہ آپ حج و عمرہ و زیارات روضہء رسولﷺ سے بہرہ مند
ہوئے ۔ آخر کار ولایت آسمانی کے یہ نیر اعظم 26-27ذیعقد 1370ھ بمطابق
30-31اگست 1951ء بروز جمعرات و جمعہ کی درمیانی شب رات 11بجے اس دار فانی
سے سفر فرما گئے ۔ آپ کا روضہ علی پور سیداں شریف ضلع ناروال میں واقع ہے
جہاں 10، 11مئی کو سجادہ نشین صاحبزادہ پیر سید منور حسین جماعتی کی
زیر سرپرستی آپ کا سالانہ عرس ہوتا ہے۔
ایم ایم جماعتی
Source: www.nawaiwaqt.com.pk
No comments:
Post a Comment