Friday

9 and 10 Ashura (Muharram) Ka Roza ( fasting of ashura )

نویں اور دسویں محرم الحرام کے روزے کی فضیلت

احادیث کی روشنی میں

عاشورا، عشر سے بناہے جس کے معنی دس کے ہیں۔ یومِ عاشور کے لفظی معنی دسویں کے دن کے ہیں۔ چونکہ یہ محرم الحرام کے مہینہ کا دن ہے۔ اِس لئے اِس کو محرم الحرام کی دسویں کا دن کہتے ہیں۔ یوم عاشورا، ظہورِ اسلام سے پہلے قریش مکہ مکرمہ کے نزدیک بھی بڑا دن تھا۔ اِسی دن خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا اور قریش مکہ مکرمہ اِس دن روزہ رکھتے۔ رسولِ کریمﷺ کا دستور تھا کہ آپﷺ مکہ مکرمہ کے لوگوں کے
اُن کاموں سے اِتفاق فرماتے تھے جو ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے اچھے کام ہوتے تھے۔ اِسی بنا پر آپ حج کی تقریبات میں بھی شرکت فرماتے تھے اوراِسی اُصول کی بنا پر عاشورا کا روزہ رکھتے تھے۔ لیکن قبل از ہجرت اِس روزے کا کسی کو حکم نہ فرمایا۔ پھر آپﷺ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت عبدﷲ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے یہود کو ”یوم عاشورا“ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا ”تو اُن سے فرمایا یہ کیسا دن ہے جس میں تم روزہ رکھتے ہو؟ اُنہوں نے عرض کی یہ وہ عظیم دن ہے جس میں ﷲ (تعالیٰ ) نے (حضرت) موسیٰ ؑ اور اُن کی قوم کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اُ س کے پیروکاروں کو غرق فرما دیا تھا۔ بعد ازیں جب یہ دن آتا تو (حضرت) موسیٰ ؑ شکرانے میں اِس دن کا روزہ رکھتے اور ہم بھی رکھتے ہیں۔ رسولِ کریمﷺ نے (اُن کی بات کو سماعت فرمانے کے بعد) اِرشاد فرمایا کہ ہم (حضرت) موسیٰ ؑ کے تم سے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ نبی کریمﷺ نے یوم عاشورا کا روزہ خود بھی رکھا اور اِس دن کا روزہ رکھنے کا حکم بھی فرمایا۔“
 (بخاری، مسلم، مشکوٰة، مسند احمد، صتح الباری، عمدة القاری، درمنثور، ابو داؤد، ابن کثیر)
یہ بات پیشِ نظر رہے کہ نبی کریمﷺ کا یہ روزہ رکھنا حضرت موسیٰ ؑکی موافقت کے لئے تھا پیروی کے لئے نہیں تھا اور نہ ہی یہودیوں کی اِس میں پیروی تھی۔
حضرت عبدﷲ بن عباسؓ سے ہی روایت ہے‘ فرماتے ہیں: ”جب رسول کریمﷺ نے عاشورا کے دن کا روزہ رکھا اور اُس کے روزے کا حکم فرمایا تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا‘ یا رسول ﷲﷺ یہ وہ دن ہے جس کی تعظیم یہودی اور عیسائی کرتے ہیں تو سرکارِ کائناتﷺ نے فرمایا اگر ہم آئندہ سال اِس دنیا میں رہے تو نویں محرم الحرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔ (ابو داؤد، مسند احمد، تفسیر قرطبی، مشکوٰة) ۔
اِس طرح مشابہت ختم ہو جائے گی کہ وہ صرف عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں اور ہم نویں تاریخ کا روزہ رکھ کر دور کر لیا کریں گے اور مشابہت کی وجہ سے نیکی بند نہیں کریں گے بلکہ اِس میں اضافہ کرکے فرق کر دیا کریں گے۔
حضرت حکم بن الاعرجؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ”کہ میں حضرت عبدﷲ بن عباسؓ کے پاس اُس وقت پہنچا جب وہ زمزم شریف کے قریب اپنی چادر لپیٹے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ میں نے عرض کیا عاشورا کے روزہ کے بارے میں فرمائیے تو آپﷺ نے فرمایا کہ ”جب تم محرم کا چاند دیکھو تو کھاؤ اور نویں تاریخ کا روزہ رکھو“(ترمذی، مسلم)
ایک اور روایت میں حضرت رزینؓ نے حضرت عطاؓ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں نے حضرت عبدﷲ بن عباسؓ سے سُنا، وہ فرماتے تھے کہ ”نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔“ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد بھی روزہ رکھو۔ (مسند احمد)
اُمّ المومنین حضرت سیّدہ حفصہؓ سے روایت ہے، فرماتی ہیں: ”چار اَعمال ایسے ہیں جن کو رسولﷲﷺ نے کبھی نہیں چھوڑا۔ یوم عاشورا کا روزہ، عشرہ ذوالحجہ (کے نو روزے) اور ہر ماہ کے تین روزے اور فجر سے پہلے دو ر کعتیں (یعنی سُنّتِ فجر)“۔ (نسائی، مسلم احمد، مشکوٰة)
نبی کریمﷺ کی ایک اور زوجہ مطہرہؓ سے روایت ہے ، فرماتی ہیں: ”رسولﷲﷺ ذی الحجہ کے نو روزے رکھتے تھے (پہلی تاریخ سے نویں تاریخ تک) اور عاشورا کے روز (یعنی دسویں محرم کو) روزہ رکھتے تھے اور ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے ایک پیر کو اور دو ، دو جمعراتوں کو“ (نسائی، مسند احمد)
حضرت مزیدہ بن جابرؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں، میری والدہ نے فرمایا: میں کوفہ کی مسجد میں تھی اور امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان غنیؓ کا دورِ خلافت تھا اور ہمارے ساتھ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بھی تھے۔ اُنہوں نے فرمایا، میں نے سُنا، وہ فرما رہے تھے: ”کہ رسول کریمﷺ عاشورا کے روزہ کے بارے میں فرما رہے تھے کہ روزہ رکھو۔“ (مسند احمد)
ایسے ہی حضرت عبدﷲ بن زبیرؓ کا واقعہ ہے وہ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے یوم عاشورا کے بارے میں فرما رہے تھے ”یہ عاشورا کا دن ہے روزہ رکھو، رسولﷲﷺ اِس دن کے روزہ کا حکم فرماتے تھے۔“ (المعجم الکبیر للطبرانی، مسند احمد)
ایک روایت میں ہے: ”رسول کریمﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا روزہ ماہِ رمضان المبارک کے بعد افضل ہے؟ فرمایا:ﷲ (تعالیٰ ) کے مہینے ماہِ محرم الحرام کے (یوم عاشورا) کا روزہ۔“ فقہاءکرام فرماتے ہیں اب سُنّت یہی ہے کہ نویں اور دسویں کے روزے رکھیں کیونکہ نبی کریمﷺ کا نویں تاریخ کے روزے کا اِرادہ بھی تھا اور اِرشاد بھی ہے۔
بعض احادیث مبارکہ میں ہے کہ آپﷺ نے اِس روزہ کا ایسا تاکیدی حکم فرمایا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لئے دیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں ”رسولِ کریمﷺ یوم عاشورا کے روزہ کا حکم فرماتے تھے اور ہم کو اِس پر رغبت دیتے اور عاشورا کے دن ہماری تحقیقات فرماتے تھے پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو نہ ہمیں روزہ رکھنے کا حکم فرمایا اور نہ ہی منع فرمایا اور نہ تحقیقات فرمائیں“ (مسند احمد، درمنثور، مشکوٰة، مسلم، ابو داؤد)
اِسی طرح حضرت ربیع بنت معوذ بن عفرائؓ اور سلمہ بن اکوعؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: کہ ”رسولﷲﷺ نے یوم عاشورا کو صبح صبح مدینہ شریف کے آس پاس کی اُن بستیوں میں جن میں انصار صحابہ کرامؓ رہتے تھے یہ اِطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی کچھ کھایا پیا نہیں وہ آج کے دن روزہ رکھیں اور جنہوں نے کچھ کھا پی لیا ہے وہ بھی بقیہ دن بھر کچھ نہ کھائیں۔ بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں۔“ (بخاری فی الصوم، مسلم، مسند احمد)
یہ حدیث پاک اُس زمانہ کی ہے جب عاشورا کا روزہ فرض تھا اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورا کے روزے کی فرضیت ختم ہو گئی اور اِس کی حیثیت نفلی روزے کی رہ گئی۔
نفلی روزوں کے بارے میں ایک طویل حدیث کے آخری حصہ میں عاشورا کے روزہ کے بارے میں اِرشاد فرمایا کہ : حضرت ابو قتادہؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں، رسولِ کریم نے فرمایا: ”عاشورا کے دن کا روزہ، مجھےﷲ کے کرم پر اُمید ہے کہ پچھلے سال کا کفّارہ بنا دے گا۔“ (مشکوٰة، مسلم، ترمذی)
حضرت عبدﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: رسول اللہﷺ نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا یعنی عاشورا دسویں تاریخ ہے۔“ (ترمذی)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں، رسولِ کریمﷺ نے فرمایا: ’رمضان المبارک کے بعد افضل روزے ﷲ (تعالیٰ) کے مہینہ محرم الحرام کے ہیں اور فرض نماز کے بعد افضل نماز رات کی نماز ہے (یعنی نمازِ تہجد)“۔ (مشکوٰة، ترمذی، شرح السنة، دارمی)
حضرت عبدﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: آپﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپﷺ کسی دن کے روزہ کو دوسرے دنوں پر بزرگی دے کر تلاش کرتے ہوں سوائے اِسی دن یعنی عاشورا کے دن اور اِسی مہینہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔“ (مشکوٰة)
امیر المومنین حضرت علیؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریمﷺ نے اِرشاد فرمایا کہ تم ماہِ رمضان المبارک کے بعد روزہ رکھنا چاہتے ہو تو محرم الحرام (کے یوم عاشورا ) کا روزہ رکھو کیونکہ یہ ﷲ ربّ العزّت کا مہینہ ہے جس میں ﷲ کریم نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور دوسری کی ﷲ تعالیٰ توبہ قبول فرمائے گا اور نبی کریمﷺ نے لوگوں کو رغبت دلائی کہ عاشورا کے دن توبة النصوح کی تجدید کریں اور قبول توبہ کے خواستگار ہوں۔ پس جس نے اِس دن ﷲ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چا ہی تو ﷲ اُس کی توبہ ویسے ہی قبول فرمائے گا جیسے اُن سے پہلوں کی توبہ قبول کی ہے اور اُس دن دوسروں کی بھی توبہ قبول فرمائے گا۔ حضرت اِمام ترمذی نے اِس کی تخریج کی ہے۔ (ترمذی)

علامہ منیر احمد یوسفی 

 

No comments:

Post a Comment