حضرت عمرؓ کا قبول اسلام
حضرت عمر فاروقؓ کے قبول اسلام خصوصاً آپؓ کے دور خلافت میں جو 13
ہجری تا 24 ہجری پر محیط ہے اسلام کو جو عروج حاصل ہوا اور گمراہ انسانیت
کو ہدایت کا راستہ ملا نیز اسلامی مملکت کی حدود کا دائرہ اتنا وسیع ہو گیا
کہ احاطہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ علامہ جلال الدین سیوطی حضرت انسؓ
کی روایت کے مطابق لکھتے ہیں
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
ایک روز حضرت عمر
فاروقؓ اپنے گھر سے تلوار حمائل کئے ہوئے نکلے۔ راستے میں قبیلہ بنو زہرہ
کا ایک شخص ملا پوچھا: اے عمرؓ! کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے۔ اسلام کے بانی
حضرت محمدﷺکو قتل کرنے جا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے پر بنی ہاشم
اور بنی زہرہ سے تم کیسے بچ سکو گے؟ عمر فاروقؓ نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے
کہ تم بھی اپنے دین کو چھوڑ چکے ہو۔ بنی زہرہ کے اس شخص نے کہا کہ میں تم
کو اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات بتلاتا ہوں کہ تمہاری بہن فاطمہ اور بہنوئی
بھی اسلام قبول کر چکے ہیں۔ عمرؓ پہلے سے زیادہ غضبناک ہو کر سیدھے بہن کے
گھر پہنچے اور مار پیٹ شروع کر دی دونوں کو زخمی کر دیا مگر جب دیکھا کہ
وہ تو اسلام کی حقانیت پر ڈٹے ہوئے ہیں توٹھنڈے ہو گئے اور وہ کتاب مانگی
جو وہ پڑھ رہے تھے۔ بہن نے کہا تم نجس ہو پہلے غسل کرو یا وضو پھر اس پاک
کلام کو ہاتھ لگاؤ۔ ایک طرف حضور اکرمﷺ کی حضرت عمر فاروقؓ کے اسلام لانے
کی دعا اور دوسری طرف بہن اور بہنوئی کا اسلام پر مضبوط عقیدہ عمرؓ کے قلب و
ذہن کو متاثر کئے جا رہا تھا کہ سورة طٰہٰ کی اس آیت پر نظر پڑی۔
ترجمہ: ”بے شک میں ہی اللہ ہوں اور کوئی دوسر ا میرے سوا معبود نہیں اس لئے تم میری ہی عبادت کرو اور میری ہی یاد میں نماز پڑھو۔“
پھر
تو آپؓ کا جسم پانی پانی ہونے لگا اور حضور اکرمﷺ کے دربار میں حاضری کی
خواہش کی۔ حضور اکرمﷺ اس وقت کوہ صفا کے مکان میں تشریف فرما تھے۔ بہن
بہنوئی جناب عمرؓ کو لے کر دربارِ رسالتﷺ میں حاضر ہوئے۔ وہاں حضرت امیر حمزہؓ
، حضرت طلحہؓ اور دوسرے صحابہ کرامؓ موجود تھے۔ حضرت حمزہؓ نے فرمایا اگر
تو عمرؓ اچھے ارادے سے آئے ہیں تو ٹھیک ورنہ آج بچ کر نہیں جا سکتے۔ سرکار
دوعالمﷺ نے فرمایا: عمرؓ کو اندر آنے دو۔ حضور اکرمﷺ اٹھے اور عمرؓ کے دامن
تلوار اور ایک روایت میں ہے کہ گریبان سے پکڑا اور کھینچا اور فرمایا:
عمرؓ! کیا یہ فساد تم اس وقت برپا کرتے رہو گے جب تم پر بھی وہ خواری اور
ذلت اللہ کی طرف سے مسلط نہ ہو جائے جیسے ولید ابن مغیرہ کے لئے ہوئی۔ حدیث
پاک کے اس حصے کو حفیظ جالندھری پاکستانی ترانے کے مصنف نے یوں بیان کیا ہے
کہا حیدر کا دامن کھینچ کر کیوں اے عمرؓ کیا ہے
چلا تھا آج کس نیت کس نیت سے آیا ہے
عمرؓ کے جسم پے اک کپکپی سی ہو گئی طاری
وہیں سر جھک گیا آنکھوں سے آنسو ہو گئے جاری
ادب سے عرض کی حاضر ہوا ہوں سر جھکانے کو
خدا پر اور رسول پاکﷺ پر ایمان لانے کو
یہ کہنا تھا کہ ہر جانب صدائے مرحبا گونج اٹھی
فضا میں نعرہ اللہ اکبر کی صدا گونجی
مولانا قاری غلام رسول
No comments:
Post a Comment