علامہ اقبالؒ اور پیر رومیؒ
حضرت مولانائے روم کی عظمت و جلالتِ شان کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ
آج بھی ان کے تذکرہ سے عرب و عجم کی محفلیں گونجتی ہیں، ان کے نام اور ان
کے کام کو آج بھی اہل نظر و صاحبان باطن سرمایہ تسکین دل و جان بنائے ہوئے
ہیں ان کی ذات پر تاریخ اسلام کو نازک ہے۔
علامہ اقبالؒ ان کواپنے
مرشد معنوی سے تعبیر کرتے ہیں ان کا کوئی مجموعہ کلام ایسا نہیں کہ جس میں
علامہ موصوف نے مختلف رنگ میں اپنی عقیدت کے پھول مولانا رومؒ کی بارگاہ
میں پیش نہ کئے ہوں ”زبور عجم“ میں وہ اپنے آپ کو ان کا رمز شناس و ادا
شناس بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی
برہمن زادہ رمز آشنائے روم و تبریز است
”بال جبریل“ میں فرماتے ہیں:
صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سربجیب، ایک کلیم سربکف
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
عطار ہو، رومی ہو، رازی وہ، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
مرشد رومی حکیم پاک زاد
سرِ مرگ و زندگی برما کشاد
وہ اپنی مئے سخن کو پیر روم کی خُم پیر روم آوردم
مئے سخن کہ جوان تر زیادہ عنبی است
ایک اور جگہ اپنی شاعری میں مولانا روم کے رہین منت ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں :
آمیزشے کجا، گہر پاک او کجا
از تاک بادہ گیرم و در ساغر افگنم
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
مقام ذکر کمالاتِ رومی و عطار
مقامِ فکر مقالاتِ بو علی سینا
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
ز چشمِ مست رومی وام کردم
سرورے از مقام کبریائی
ارمغان
حجاز میں علامہ نہایت نیاز مندانہ طور پر اس کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے
ہیں کہ مجھے جو کچھ فیض ہے، وہ مولانا رومؒ ہی کا ہے، انہوں ہی نے مجھ کو
عشق و مستی سے آشنا کیا ہے:
گرہ از کارِ ایں ناکارہ وا کرد
غبارِ رہ گزر را کیمیا کر
نئے اں نے نوازے پاک بازے
مرا با عشق و مستی آشنا کرد
وہ
ہرجگہ اس کے معترف نظر آتے ہیں کہ مولانائے روم ان کے مرشد معنوی ہیں اور
انہوں نے مولانا ہی سے روحانی فیض حاصل کیا ہے، فرماتے ہیں:
باز برخوانم ز فیضِ پیر روم
دفترِ سر بستہ اسرارِ علوم
جانِ او از شعلہ ہا سرمایہ دار
من فروغِ یک نفس مثلِ شرار
پیرِ رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد
موجم و در بحرِ او منزل کنم
تا در ِتابندہ¿ حاصل کنم
من کہ مستی ہا زصہبایش کنم
زندگانی از نفس ہایش کنم
ان
اشعار میں واضح طور پر علامہ نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جو کیف و مستی ان
کے بادہ اشعار میں نظر آتی ہے وہ مولانا روم کی عطا کردہ ہے۔ وہ اپنے
خیالات و افکار کے شائستہ، مہذب اور مرتب کرنے میں ان ہی کے رہین منت ہی
پھر اسی مثنوی میں اپنا ایک خواب بیان کرتے ہیں جبکہ عرفان و آگہی کی طب نے
ان کو بیقرار کر رکھا تھا وہ اسی عالم میں سو جاتے ہیں، خواب میں پیر رومی
کو دیکھتے ہیں، جو ان کو تسکین دیتے ہوئے، حقیقت کو ان پر منکشف فرماتے
ہیں، خودی کے اسرار کو ان پر آشکار کرتے ہیں، چنانچہ علامہ ارشاد فرماتے
ہیں کہ عارف رومی کی اس تلقین کے بعد میں نے راز خود کو فاش کی ہے۔
جاوید
نامے میں وہ مولانا رومؒ کے اوصاف و خصائل کی مدح سرائی میں رطب اللسان ہیں
اور اسی جاوید نامے میں علامہ اقبالؒ نے پیر رومی کی رہبری میں عالم افلاک
کی سیر کی ہے، اسی روحانی سیر میں پیر رومی نے ان پر زندگی کے مختلف اسرار و
رموز کی عقدہ کشائی کی ہے اور علامہ کے مختلف سوالات کے جواب دیئے ہیں
جاوید نامے میں علامہ پر مولانا رومؒ کے روحانی فیوض و برکات کا اثر سب سے
زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ اسی میں پیر رومی ان سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ہر کجا رومی برد، آنجا برو
یک دو دم از غیرِ او بیگانہ شو
No comments:
Post a Comment