اقبالؒ اور محبتِ رسول صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں
جب میں حضورﷺکی ذات والا صفات پر درود بھیجتا ہوں
تو میرا وجود شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے
تو میرا وجود شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے
اقبالؒ
کی شاعرانہ عظمت سے انکار نہیں بلاشبہ ایک عظیم شاعر کے طور پر انہوں نے
برصغیر کے مسلمانوں کو ایک مصلح اور ریفارمر کے انداز میں امید و یقین، سعی
و عمل اور بیداری و خود آگہی سے آشنا کیا ہے اور ایک دل شکستہ قوم کو عزم و
عمل کی راہوں پر ڈںال کر مٹنے سے بچایا ہے۔ یہ اُن کا احسانِ عظیم ہے....
لیکن وہ شاعر کے
علاوہ کچھ اور بھی ہیں۔ جدید عالمِ اسلام کے متفقہ قائد، مسلم سیاست و تاریخ کی باریکیوں پر نظر رکھنے والے دانشور، تمدن و معاشرت کے شناور، تصوف و طریقت اور خلافت و جمہوریت پر فکری رہنمائی کرنے والے مفکر اور مسلمانانِ برصغیر کے قلب و ذہن کو احساسِ کمتری سے پاک کر کے اقوام عالم میں ان کا تشخص اُجاگر کرنے والے راہبر۔ اقبالؒ کے ان اوصاف کا احساس ہمیں اُس وقت ہوتا ہے جب ہم ان کی فلسفیانہ موشگافیوں سے پرے اُن کی حقیقی زندگی میں ان کی سوچ اور فہم و ادراک پر نظر ڈالتے ہیں اور ا ُن کے تعمیری اندازِ فکر، گہری بصیرت، جانکاہی اور جگرسوزی کے واقعات سے متعارف ہوتے ہیں بالخصوص رسالت مآبﷺ سے والہانہ عشق کے حوالے سے اُن کے شعور و فہم اور ان کے فکر کی جولانیاں اُن کا گرویدہ بنا دیتی ہیں۔ چنانچہ غیر بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ گزشتہ صدی میں برصغیر کی تاریخ میں اقبالؒ سے زیادہ غیرت مند مسلمان اور عاشقِ رسولﷺ پیدا نہیں ہوا اور ان کی زندگی کے بے شمار واقعات ایسے ہیں جن سے ان کی حضورختمی المرتبتﷺ سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔
اقبالؒ اگرچہ اپنی عملی زندگی میں ایک معتدل مزاج اور سادہ دل مسلمان تھے جو کسی سازش یا سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے قائل نہ تھے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت یا تنظیم میں کسی گروپ یا پارٹی بازی سے انہیں سروکار تھا لیکن جب مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی خود ساختہ ”نبوت“ کی تبلیغ شروع کی اور عقیدہ ختم نبوت پر ضرب لگانے کی جسارت کی تو اقبالؒ جیسے عاشقِ رسولﷺ اور درد مند مسلمان سے برداشت نہ ہو سکا۔ چنانچہ فتنہ قادیانیت کے بارے میں اُن کی سخت گیر پالیسی اور اس سے برملا اظہار نفرت و بے زاری جس کے پس منظر میں ان کی دینی غیرت، اسلامی حمیت اور حضور نبی اکرمﷺ سے گہری الفت کارفرما تھی کھل کر سامنے آ گئی۔ رسول پاکﷺ کی ختم المرسلین جو ایک حقیقت ہے اور ہر مسلمان کے ایمان کا جزو ہے اس کے خلاف کسی بھی کوشش پر اقبالؒ جیسے عاشقِ صادق کا خاموش رہنا قطعی ناممکن تھا۔ اُن کی بصیرت اور غیرتِ ایمانی نے اس فتنے کی سرکوبی اور اس کے عیاں و نہاں مقاصد سے پردہ اٹھانا ضرور سمجھا۔ انہوں نے پوری شرح و بسط سے یہ بات واضح کی کہ قادیانیوں کا اسلام سے کوئی عملی رابطہ نہیں اور خود ان کے عمل کی روشنی میں اسلام سے ان کی رسمی تعلق کو ختم کر کے انہیں ایک غیر مسلم جماعت قرار دیا جائے۔ بے شک یہ منفرد اعزاز اقبالؒ ہی کا حصہ ہے کہ اُن کی تحریک کے نتیجے میں چاہے اُن کے بعد ہی مسلمانوں نے قادیانیوں کی روش پر گہری نظر رکھتے ہوئے ان کے مشکوک و مذموم کردار کو ہمیشہ عامة المسلمین کے نقد و جرح کا باعث بنایا اور بالآخر قادیانیوں کو کلی طور پرایک غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔
علاوہ کچھ اور بھی ہیں۔ جدید عالمِ اسلام کے متفقہ قائد، مسلم سیاست و تاریخ کی باریکیوں پر نظر رکھنے والے دانشور، تمدن و معاشرت کے شناور، تصوف و طریقت اور خلافت و جمہوریت پر فکری رہنمائی کرنے والے مفکر اور مسلمانانِ برصغیر کے قلب و ذہن کو احساسِ کمتری سے پاک کر کے اقوام عالم میں ان کا تشخص اُجاگر کرنے والے راہبر۔ اقبالؒ کے ان اوصاف کا احساس ہمیں اُس وقت ہوتا ہے جب ہم ان کی فلسفیانہ موشگافیوں سے پرے اُن کی حقیقی زندگی میں ان کی سوچ اور فہم و ادراک پر نظر ڈالتے ہیں اور ا ُن کے تعمیری اندازِ فکر، گہری بصیرت، جانکاہی اور جگرسوزی کے واقعات سے متعارف ہوتے ہیں بالخصوص رسالت مآبﷺ سے والہانہ عشق کے حوالے سے اُن کے شعور و فہم اور ان کے فکر کی جولانیاں اُن کا گرویدہ بنا دیتی ہیں۔ چنانچہ غیر بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ گزشتہ صدی میں برصغیر کی تاریخ میں اقبالؒ سے زیادہ غیرت مند مسلمان اور عاشقِ رسولﷺ پیدا نہیں ہوا اور ان کی زندگی کے بے شمار واقعات ایسے ہیں جن سے ان کی حضورختمی المرتبتﷺ سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔
اقبالؒ اگرچہ اپنی عملی زندگی میں ایک معتدل مزاج اور سادہ دل مسلمان تھے جو کسی سازش یا سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے قائل نہ تھے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت یا تنظیم میں کسی گروپ یا پارٹی بازی سے انہیں سروکار تھا لیکن جب مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی خود ساختہ ”نبوت“ کی تبلیغ شروع کی اور عقیدہ ختم نبوت پر ضرب لگانے کی جسارت کی تو اقبالؒ جیسے عاشقِ رسولﷺ اور درد مند مسلمان سے برداشت نہ ہو سکا۔ چنانچہ فتنہ قادیانیت کے بارے میں اُن کی سخت گیر پالیسی اور اس سے برملا اظہار نفرت و بے زاری جس کے پس منظر میں ان کی دینی غیرت، اسلامی حمیت اور حضور نبی اکرمﷺ سے گہری الفت کارفرما تھی کھل کر سامنے آ گئی۔ رسول پاکﷺ کی ختم المرسلین جو ایک حقیقت ہے اور ہر مسلمان کے ایمان کا جزو ہے اس کے خلاف کسی بھی کوشش پر اقبالؒ جیسے عاشقِ صادق کا خاموش رہنا قطعی ناممکن تھا۔ اُن کی بصیرت اور غیرتِ ایمانی نے اس فتنے کی سرکوبی اور اس کے عیاں و نہاں مقاصد سے پردہ اٹھانا ضرور سمجھا۔ انہوں نے پوری شرح و بسط سے یہ بات واضح کی کہ قادیانیوں کا اسلام سے کوئی عملی رابطہ نہیں اور خود ان کے عمل کی روشنی میں اسلام سے ان کی رسمی تعلق کو ختم کر کے انہیں ایک غیر مسلم جماعت قرار دیا جائے۔ بے شک یہ منفرد اعزاز اقبالؒ ہی کا حصہ ہے کہ اُن کی تحریک کے نتیجے میں چاہے اُن کے بعد ہی مسلمانوں نے قادیانیوں کی روش پر گہری نظر رکھتے ہوئے ان کے مشکوک و مذموم کردار کو ہمیشہ عامة المسلمین کے نقد و جرح کا باعث بنایا اور بالآخر قادیانیوں کو کلی طور پرایک غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔
اقبالؒ اگر
کسی گستاخِ رسولﷺ کو برداشت نہ کر سکتے تھے تو ایسے لوگ ان کے دل میں بستے
تھے جو ناموسِ رسالتﷺ پر فدا ہونے والے تھے۔ خاص طور پر برصغیر میں شمع
رسالتﷺ پر قربان ہونے والے پردانوں میں غازی علم الدین شہید اور غازی
عبدالقیوم شہید کی جاں نثاری اور سرفروشانہ شہادت سے بہت متاثر تھے۔ ان
دونوں کے لئے اقبالؒ کا یہ خراج عقیدت وہ نقش جمیل ہے جسے بھلایا نہیں
جاسکتا
نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے فقط عالم معنیٰ کا سفر
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
آہ اے مردِ مسلماں! تجھے کیا یاد نہیں
حرف لا تدع مع اللہ الٰہاً آخر
عشقِ
رسولﷺ کے ضمن میں اقبالؒ سے وابستہ یوں تو بے شمار واقعات ہیں لیکن چند
واقعات ایسے ہیں جو بے حد دل نشیں، روح پرور اور سوز و ساز سے عبارت ہیں
اور ہر مسلمان کے دل کو راحت سے سرشار کرتے اور زندگی کو حرارت عطا کرتے
ہیں۔
اقبالؒ گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد یورپ کے کئی ملکوں سمیت
فلسطین و مصر کی سیاحت کرتے ہوئے لاہور پہنچے تو اُن کے ایک بے تکلف دوست
نے کہا کہ اگر آپ اتنی لمبی سیاحت کے ساتھ رسول پاکﷺ کے روضہ مبارک کی
زیارت بھی کر آتے تو کتنا اچھا ہوتا۔
اس بات پر علامہ کی آنکھیں چھلک اٹھیں اور وہ گلو گیر آواز میں بولے:
”میں کس منہ سے روضۂ اطہر پر جاتا۔“
اور پھر وہ دیر تک روتے رہے اور اُن کا وجود کپکپاتا رہا۔
اقبالؒ
حضور رسالت مآبﷺ سے جو والہانہ عقیدت رکھتے تھے اس کے پیش نظر وہ آپﷺ کے ذکر
مبارک کے ساتھ کسی قسم کی کوتاہی، غلطی یا بے ادبی کو برداشت نہ کرتے تھے۔
ذیل کا واقعہ آپ کی اسی محبت اور ادب کا ثبوت ہے۔
ایک روز ایک
نوجوان اقبالؒ کے ہاں آیا اور دورانِ گفتگو جب پیغمبر آخر الزماں حضرت محمدﷺ
کا ذکر آیا تو اس نوجوان نے حضورﷺ کا اسمِ مبارک معروف تعظیمی القاب و آداب
کے بغیر ”محمد صاحب“ کے کہہ کر پکارا۔ اقبالؒ کا چہرہ ایک دم متغیر ہو گیا
اور شدید ناگواری کے باعث انہیں چپ سی لگ گئی۔ کچھ دیر بعد وہ نوجوان ماحول
میں تنا کو بھانپ کر اٹھ کر چلا گیا۔ یکایک اقبالﷺ کی آنکھوں سے آنسووں کی
جھڑی لگ گئی۔ انہوں نے سخت بے کلی اور گہرے اضطراب کے ساتھ حاضرین مجلس کو
مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”ہماری قوم کا انجام کیا ہوگا، جس کے نوجوان
مقامِ رسالتﷺ سے بے خبر اور نابلد ہیں اور نہیں جانتے کہ محمد عربیﷺ کے مقام
کو نہ پہچان کر کس گمراہی میں گرتے جا رہے ہیں۔“
اقبالﷺ سے منسوب یہ
واقعہ بھی حضور نبی اکرمﷺ کے فدائیوں کی مشامِ جاں کو معطر کرنے کا موجب
ہے اور واضح کرتا ہے کہ جب ایک اُمتی حضورﷺ کے صدقے میں نعمتوں سے فیضیاب
ہوتا ہے اور ایسے میں جب اسے اپنے آقاﷺ کی مصائب سے پُرحیات طیبہ کی یاد آتی
ہے تو اس کے لئے خود کو سنبھالنا کیسے دشوار ہو جاتا ہے .... یہ اس وقت کی
بات ہے جب پنجاب کے ایک بہت بڑے زمیندار نے کسی قانونی رہنمائی کے لئے
اقبالؒ کو اپنے ہاں مدعو کیا اور بڑے شاہانہ انداز میں اُن کے قیام اور آرام
و طعام کا بندوبست کیا۔ اپنے میزبان کی جانب سے خاطر مدارت، اسباب آرام و
آسائش اور نرم و نازک آرام دہ بستر دیکھ کر اقبالؒ کے دل میں دفعتاً یہ خیال
آیا کہ جن رسول پاکﷺ کی نعلین مبارک کے صدقے میں انہیں یہ مرتبے نصیب ہوئے ہیں
انہوں نے کھردری چارپائی اور بوریے پر سو کر زندگی گزاری تھی۔ اس خیال کا
آنا تھا کہ آنسووں کا تار بندھ گیا اور بستر پر لیٹنا مشکل ہو گیا۔ بے قرار
ہو کر اٹھے اور برابر کے غسل خانے میں جا کر زار وقطار رونے لگے۔ جب دل بے
قرار کو کچھ قرار آیا تو ملازم کو بلا کر اپنا بستر نکلوایا ایک کھردرے
بان کی چارپائی غسل خانے میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے غسل خانے ہی
میں سوتے رہے۔
ہماری ادبی تاریخ میں سیرت نگاروں نے سرورِ دو عالمﷺ
کو جو خراج عقیدت پیش کیا ہے دنیا کے کسی ادب میں اس کی مثال نہیں ملتی اور
یہ بھی حقیقت ہے کہ تقریباً سبھی سیرت نگار علامہ اقبالؒ کی حضورﷺ سے محبت و
وارفتگی اور اس میں سرشاری و سرمستی کا نہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ اسی
لگن، تڑپ اور جذب وکیف کی تمنا کرتے ہیں جو اقبالؒ کی عظمت اور فنی ارتقا کی
اساس ہے۔ کتاب ”نظریات و افکار اقبالؒ“ کے مرتب جناب شیخ محمد علی اقبالؒ
اور عشقِ رسولﷺ کے حوالے سے اعتراف کرتے ہیں کہ عشقِ رسولﷺ اقبالؒ کا دل پسند
موضوع اور ان کے فلسفے کی بنیاد ہے۔ اُن کے نزدیک اگر مسلمان تمام دنیوی
نعمتوں سے مالا مال ہوں اور انہیں تمام بنیادی آسائشیں حاصل ہوں لیکن وہ
عشقِ رسولﷺ سے محروم ہوں تو اُن کے پاس کچھ نہیں۔ اس صورت میں نہ تو ان کی
گفتار اثر انگیز ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان کا کردار قابل توجہ ہو سکتا ہے۔
اس لئے کہ یہ سب کچھ صرف اور صرف عشقِ رسولﷺ اور حُبِ رسولﷺ میں مضمر ہے۔
اقبالؒ کا کہنا ہے کہ، اگر عشقِ رسولﷺ کارفرمائیاں نہ ہوتیں تو دنیا صبر
حسینؓ کی فقید المثال ضیاپاشیوں سے آشنا نہ ہو سکتی تھی۔ بدروحسنین کے
معرکوں میں کامیابیاں حاصل نہ ہو سکتی تھیں۔ سومنات کے لات و منات پاش پاش
نہ کئے جا سکتے تھے اور اسلام کو وہ وسعتیں نہ مل سکتی تھیں جو تاریخ کے
حوالے سے آج سامنے آتی ہیں۔ اقبالؒ کی نگاہوں میں دنیا کی ہر چیز عشقِ رسولﷺ
کے بغیر بے مصرف و بے معنی ہے۔ اقبالؒ رسالتِ مآبﷺ کی ذاتِ گرامی سے وفاداری،
آپﷺ کی اتباع اور تابع داری کے حوالے سے یہ پیغام دیتے نظر آتے ہیں
کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں
اقبالؒ
کو حضور سرورِ دوعالمﷺ سے جو عقیدت تھی وہ آج بھی محبت کا ایک استعارہ ہے۔
وہ اپنے قلب تپاں کی راحت کے لئے درود و صلٰواة کا سہارا لیتے ہیں اور
رحمتوں کے حصول کے لئے دامن کشا ہوتے ہیں لیکن ایک عاشقِ صادق کے طور پر جب
وہ درود وسلام کے عمل سے گزرتے ہیں تو مقامِ رسالتﷺ کی رفعتوں کے روبرو
اپنی کم مائیگی، کوتاہی اور عصیاں کاری کا احساس انہیں خجل کر دیتا ہے
چنانچہ ”پس چہ باید کرداے اقوامِ مشرق“ میں اپنی اس کیفیت کو یوں بیان کرتے
ہیں
چوں بنامِ مصطفی خوانم درود
از خجالت آب می گردو وجود
(جب میں حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذات والا صفات پر درود بھیجتا ہوں تو میرا وجود شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے)
اقبالؒ
کے دل کی تسکین کا واحد ذریعہ حضورﷺ کا اسم مبارک ہے یہی وہ طاقت ہے جو
اُمت کے دلوں میں زندگی بن کر دوڑ رہی ہے اور جس سے ہماری جان راحت آشنا
ہوتی ہے۔ وہ اپنی امت کے قافلے کے راہبر و سالار ہیں جن کی قیادت میں منزل
سامنے ہے۔
اقبالؒ اسی حقیقت کو ”بانگِ درا“ میں یوں بیان کرتے ہیں
سالارِ کارواں ہے میر حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام و جاں ہمارا
اور حضور نبی اکرمﷺ کی شان میں محبت سے سرشاری کا یہ انداز ”بال جبریل“ میں یوں جھلکتا ہے
وہ دانائے سُبل ختم الرسل مولائے کُل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی¿ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ
اقبال
جب بھی ذکر رسولﷺ چھیڑتے ہیں تو ان کی وجدانی کیفیت دیدنی ہوتی ہے اور اس
ہستی کے لئے جو کبھی حقیقت منظر تھی اور جس کے لئے جبینِ نیاز کے ہزاروں
سجدوں کا ظہور ہونے والا تھا ایسی ترکیبیں ڈھونڈ کے لاتے ہیں کہ قاری جھوم
کے رہ جاتا ہے اورخود کو عشق و مستی کی اسی بوچھاڑ میں شرابور پاتا ہے جو
صرف عشاق کا مقدر ہوتی ہے۔ اقبالؒ حضورﷺ ہی کو مطلوب جہاں اور حاصل کائنات
جانتے ہیں اسی لئے ”بانگ درا“ میں حضورﷺ کے وجودِ مسعود کو اس دنیا کی
خوبصورتی کا باعث قرار دیتے ہیں اور اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ ہر نعمت
انہی کا صدقہ ہے
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خُم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
No comments:
Post a Comment