Showing posts with label Abu Bakar Siddique R.A. Show all posts
Showing posts with label Abu Bakar Siddique R.A. Show all posts

Monday

Pekar e Sidaq O Wafa Syedna Siddique e Akbar R.A

پیکرِ صدق و وفاء

حضرت ابو بکر صدیقؓ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے ایک دفعہ آپؓ تجارت کی غرض سے ملک شام گئے تو وہاں ایک سابقہ آسمانی کتب کا یہودی عالم ’’بحیرا راھب‘‘ سے ملاقات ہوئی جس نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو ایک خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا کہ تو اس ’’نبی‘‘ کی تابعداری کریگا جس کا زمانہ کو انتظار ہے اور اس کے ظہور کا زمانہ بہت قریب آ چکا ہے، اور اس نبی کے قرب کی سعادت دوسرے لوگوں کی بنسبت زیادہ پائے گا… اسی طرح حضرت ابو بکر صدیقؓ تجارت کی غرض سے یمن گئے تو وہاں آپؓ کی ملاقات آسمانی کتب کے ایک بہت بڑے عالم سے ہوئی جس نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی علامات و نشانیاں دیکھنے کے بعد کہا کہ پہلی آسمانی کتب میں یہ علامات و نشانیاں اس شخص کے بارے میں ہیں جو نبی آخر الزماں پر سب سے پہلے ایمان لائے گا اور اس کا زبردست معاون ثابت ہو گا اور نبی آخر الزماں کی وفات کے بعد اس کا جانشین و خلیفہ ہو گا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کا حضور ﷺ کے ساتھ اس سے قبل ہی دوستی و محبت کا بہت گہرا تعلق تھا اور آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار سے بہت متاثر تھے… حضرت ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ آسمانی کتب کے علماء کی طرف سے آخری نبی ﷺ کی آمد کی بشارت و خوشخبری سننے کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ و ہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات بابرکات ہے، اور میں اسی وقت ہی ان پر ایمان لے آیا تھا اور میں اس انتظار میں تھا کہ کب آپ ﷺ اعلان نبوت فرمائیں اور میں اپنے ایمان لانے کا اظہار کروں… اور پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اظہار و اعلان کیا تو میں نے اپنے ایمان لانے کا اظہار کرتے ہوئے فورًا آپ ﷺ کی نبوت کی تصدیق کی۔

Pekar e Sidaq O Wafa Syedna Siddique e Akbar R.A

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے یں کہ میں نے جس کو بھی اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی اس نے جھجھک اور ترددّ سے کام لیا لیکن ایک ابو بکر صدیقؓ کی واحد ذات ہے جس کے اندر ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے میں کوئی تردد یا جھجھک نہیں تھا بلکہ فوراً ایمان لائے

مردوں میں سے حضرت ابو بکر صدیقؓ، بچوں میں سے حضرت علیؓ، عورتوں میں سے ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰی ؓ اور غلاموں میں سے حضرت زیدؓ سب سے پہلے ایمان لائے آپ ؓ ’’السابقون الاوّلون‘‘ کی قرآنی بشارت میں بھی سر فہرست ہیں۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینا شروع کر دی اور آپ ؓ کی ہی دعوتِ اسلام پر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عبید بن زیدؓ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ فوراً ایمان لائے۔ ابھی تک دعوت اسلام کو خفیہ رکھا گیا تھا، اعلانیہ کسی کو دعوت نہیں دی گئی تھی… جب مسلمانوں کی تعداد انتالیس تک پہنچ گئی تو حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اصرار پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر بیت اللہ میں اعلانیہ دعوت اسلام دینے اور اظہار نبوت کیلئے تشریف لے گئے، حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بیت اللہ میں توحید و رسالتؐ پر خطبہ شروع کیا یہ تاریخ اسلام میں سب سے پہلا خطبہ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ پہلے خطیب ہیں… اسی دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہؓ اسلام لائے اور اس کے تین دن بعد حضرت سیدنا عمر فاروقؓ ایمان لائے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بیت اللہ میں خطبہ شروع کرتے ہوئے ابھی دعوتِ اسلام دی ہی تھی کہ کفار و مشرکین چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی شرافت و عزت اور عظمت کے باوجود ان کو اس قدر مارا کہ آپؓ لہولہان اور بے ہوش ہو گئے

 حضرت ابو بکر صدیقؓ کے والد عثمان ابو قحافہؓ مکہ کے باعزت لوگوں میں سے تھے شروع میں اسلام نہ لائے… ایک روز حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنے والد ابو قحافہ ؓ کو لیکر بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے ان پر نگاہ پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کمزوری و مجبوری میں ان کو کیوں تکلیف دی مجھے کہا ہوتا… ابو قحافہؓ کے پاس مجھے خود جانا چاہیئے تھا، … جب ابو قحافہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم احتراماً کھڑے ہو گئے اور اپنے پہلو میں بٹھا کر بڑی محبت سے ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور کلمہ پڑھا کر مسلمان کرتے ہوئے نورِ ایمان سے منور کر دیا…۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے مال و دولت کو اسلام کیلئے وقف کر دیا، حضرت بلال حبشیؓ، عامر بن فہیرہؓ، نذیر بنت نہدیہؓ، زنیرہؓ وغیرہ مسلمان تھے لیکن کافروں کے غلام ہونے کی وجہ سے ظلم و تشدد اور مصائب و مشکلات کا سامنا کرتے تھے، حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ان سب کو بھاری قیمت کے بدلے آزاد کروا کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں لے آئے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں میں سے سب سے زیادہ کس سے محبت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ عائشہؓ سے، سوال ہوا کہ مردوں میں سے سب سے زیادہ کون محبوب ہے تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ عائشہؓ کا باب یعنی سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ۔

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بار چاندنی رات تھی آسمان پر ستارے خوب روشن تھے… میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر بھی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں عمرؓ کی، میں نے عرض کیا ابو بکرؓ کی نیکیوں کی کیا کیفیت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمرؓ کی تمام نیکیاں ابو بکرؓ کی ایک (ہجرت کی) رات کی نیکی کے برابر ہیں۔ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے جب حضرت ابو بکر صدیقؓ کا ذکر آتا تو فرماتے کہ ابو بکرؓ کی ایک رات اور ایک دن عمرؓ کی تمام زندگی کی عبادت سے کہیں بہتر ہے، رات غارِ ثور کی اور دن وہ کہ جس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا۔ اس روز ابو بکر صدیقؓ نے جرأت ایمانی، استقامت اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام فتنوں کی سرکوبی کی اور اسلام کی بقاء کیلئے مثالی اقدامات کر کے نائبِ رسول ﷺ ہونے کا حق ادا کر دیا۔

ترمذی شریف میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے دو وزیر اہلِ آسمان (فرشتوں) سے ہوتے ہیں اور دو وزیر اہلِ زمین سے ہوتے ہیں میرے دو وزیر اہلِ آسمان سے جبرائیل اور میکائیل ہیں اور اہلِ زمین سے ابو بکرؓ و عمرؓ ہیں۔

مولانا مجیب الرحمن انقلابی


 Source: www.nawaiwaqt.com