Showing posts with label Ashab e Muhammad (AAP PER DAROOD O SALAM). Show all posts
Showing posts with label Ashab e Muhammad (AAP PER DAROOD O SALAM). Show all posts

Monday

Pekar e Sidaq O Wafa Syedna Siddique e Akbar R.A

پیکرِ صدق و وفاء

حضرت ابو بکر صدیقؓ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے ایک دفعہ آپؓ تجارت کی غرض سے ملک شام گئے تو وہاں ایک سابقہ آسمانی کتب کا یہودی عالم ’’بحیرا راھب‘‘ سے ملاقات ہوئی جس نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو ایک خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا کہ تو اس ’’نبی‘‘ کی تابعداری کریگا جس کا زمانہ کو انتظار ہے اور اس کے ظہور کا زمانہ بہت قریب آ چکا ہے، اور اس نبی کے قرب کی سعادت دوسرے لوگوں کی بنسبت زیادہ پائے گا… اسی طرح حضرت ابو بکر صدیقؓ تجارت کی غرض سے یمن گئے تو وہاں آپؓ کی ملاقات آسمانی کتب کے ایک بہت بڑے عالم سے ہوئی جس نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی علامات و نشانیاں دیکھنے کے بعد کہا کہ پہلی آسمانی کتب میں یہ علامات و نشانیاں اس شخص کے بارے میں ہیں جو نبی آخر الزماں پر سب سے پہلے ایمان لائے گا اور اس کا زبردست معاون ثابت ہو گا اور نبی آخر الزماں کی وفات کے بعد اس کا جانشین و خلیفہ ہو گا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کا حضور ﷺ کے ساتھ اس سے قبل ہی دوستی و محبت کا بہت گہرا تعلق تھا اور آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار سے بہت متاثر تھے… حضرت ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ آسمانی کتب کے علماء کی طرف سے آخری نبی ﷺ کی آمد کی بشارت و خوشخبری سننے کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ و ہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات بابرکات ہے، اور میں اسی وقت ہی ان پر ایمان لے آیا تھا اور میں اس انتظار میں تھا کہ کب آپ ﷺ اعلان نبوت فرمائیں اور میں اپنے ایمان لانے کا اظہار کروں… اور پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اظہار و اعلان کیا تو میں نے اپنے ایمان لانے کا اظہار کرتے ہوئے فورًا آپ ﷺ کی نبوت کی تصدیق کی۔

Pekar e Sidaq O Wafa Syedna Siddique e Akbar R.A

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے یں کہ میں نے جس کو بھی اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی اس نے جھجھک اور ترددّ سے کام لیا لیکن ایک ابو بکر صدیقؓ کی واحد ذات ہے جس کے اندر ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے میں کوئی تردد یا جھجھک نہیں تھا بلکہ فوراً ایمان لائے

مردوں میں سے حضرت ابو بکر صدیقؓ، بچوں میں سے حضرت علیؓ، عورتوں میں سے ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰی ؓ اور غلاموں میں سے حضرت زیدؓ سب سے پہلے ایمان لائے آپ ؓ ’’السابقون الاوّلون‘‘ کی قرآنی بشارت میں بھی سر فہرست ہیں۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینا شروع کر دی اور آپ ؓ کی ہی دعوتِ اسلام پر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عبید بن زیدؓ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ فوراً ایمان لائے۔ ابھی تک دعوت اسلام کو خفیہ رکھا گیا تھا، اعلانیہ کسی کو دعوت نہیں دی گئی تھی… جب مسلمانوں کی تعداد انتالیس تک پہنچ گئی تو حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اصرار پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر بیت اللہ میں اعلانیہ دعوت اسلام دینے اور اظہار نبوت کیلئے تشریف لے گئے، حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بیت اللہ میں توحید و رسالتؐ پر خطبہ شروع کیا یہ تاریخ اسلام میں سب سے پہلا خطبہ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ پہلے خطیب ہیں… اسی دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہؓ اسلام لائے اور اس کے تین دن بعد حضرت سیدنا عمر فاروقؓ ایمان لائے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بیت اللہ میں خطبہ شروع کرتے ہوئے ابھی دعوتِ اسلام دی ہی تھی کہ کفار و مشرکین چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی شرافت و عزت اور عظمت کے باوجود ان کو اس قدر مارا کہ آپؓ لہولہان اور بے ہوش ہو گئے

 حضرت ابو بکر صدیقؓ کے والد عثمان ابو قحافہؓ مکہ کے باعزت لوگوں میں سے تھے شروع میں اسلام نہ لائے… ایک روز حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنے والد ابو قحافہ ؓ کو لیکر بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے ان پر نگاہ پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کمزوری و مجبوری میں ان کو کیوں تکلیف دی مجھے کہا ہوتا… ابو قحافہؓ کے پاس مجھے خود جانا چاہیئے تھا، … جب ابو قحافہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم احتراماً کھڑے ہو گئے اور اپنے پہلو میں بٹھا کر بڑی محبت سے ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور کلمہ پڑھا کر مسلمان کرتے ہوئے نورِ ایمان سے منور کر دیا…۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے مال و دولت کو اسلام کیلئے وقف کر دیا، حضرت بلال حبشیؓ، عامر بن فہیرہؓ، نذیر بنت نہدیہؓ، زنیرہؓ وغیرہ مسلمان تھے لیکن کافروں کے غلام ہونے کی وجہ سے ظلم و تشدد اور مصائب و مشکلات کا سامنا کرتے تھے، حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ان سب کو بھاری قیمت کے بدلے آزاد کروا کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں لے آئے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں میں سے سب سے زیادہ کس سے محبت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ عائشہؓ سے، سوال ہوا کہ مردوں میں سے سب سے زیادہ کون محبوب ہے تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ عائشہؓ کا باب یعنی سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ۔

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بار چاندنی رات تھی آسمان پر ستارے خوب روشن تھے… میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر بھی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں عمرؓ کی، میں نے عرض کیا ابو بکرؓ کی نیکیوں کی کیا کیفیت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمرؓ کی تمام نیکیاں ابو بکرؓ کی ایک (ہجرت کی) رات کی نیکی کے برابر ہیں۔ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے جب حضرت ابو بکر صدیقؓ کا ذکر آتا تو فرماتے کہ ابو بکرؓ کی ایک رات اور ایک دن عمرؓ کی تمام زندگی کی عبادت سے کہیں بہتر ہے، رات غارِ ثور کی اور دن وہ کہ جس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا۔ اس روز ابو بکر صدیقؓ نے جرأت ایمانی، استقامت اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام فتنوں کی سرکوبی کی اور اسلام کی بقاء کیلئے مثالی اقدامات کر کے نائبِ رسول ﷺ ہونے کا حق ادا کر دیا۔

ترمذی شریف میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے دو وزیر اہلِ آسمان (فرشتوں) سے ہوتے ہیں اور دو وزیر اہلِ زمین سے ہوتے ہیں میرے دو وزیر اہلِ آسمان سے جبرائیل اور میکائیل ہیں اور اہلِ زمین سے ابو بکرؓ و عمرؓ ہیں۔

مولانا مجیب الرحمن انقلابی


 Source: www.nawaiwaqt.com

Yaar e Ghaar Syedna Sidiq e Akbar R.A

یارِ غار:

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول کریم ﷺ نے سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو فرمایا: ’’تم میرے یارِ غار بھی ہو اور حوضِ کوثر پر بھی میرے ساتھی ہو۔‘‘

Yaar e Ghaar Syedna Sidiq e Akbar R.A

 

جنت کے بوڑھوں کے سردار :

سیّدنا علیؓ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم ﷺ کا اِرشادِ مقدس ہے:  ’’سیّدنا ابوبکرؓ اور سیّدنا عمر فاروقؓ اَنبیاء کرامؑ کے علاوہ تمام اَوّلین و آخرین کے بوڑھوں کے سردار ہیں۔ (سیّدنا علیؓ کو حکم فرمایا) اے علیؓ ! جب تک یہ زندہ ہیں اِن کو اِس بات کی خبر نہ دینا۔‘‘

وزیر :

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول  کریم ﷺ کا اِرشادِ مقدّس ہے : ’’کوئی نبی اَیسے نہیں ہوئے جس کے دو وزیر آسمان والوں اور دو وزیر زمین والوں میں نہ ہوئے ہوں۔ میرے دو وزیر آسمان والوں میں (حضرت) جبرائیلؑ اور (حضرت) میکائیلؑ ہیں جب کہ دو وزیر زمین والوں میں (حضرت) ابوبکرؓ اور (حضرت) عمر فاروقؓ ہیں۔‘‘

امیر المؤمنین حضرت سیدّنا ابوبکر صدیقؓ کا اَخلاق

سیّدنا ابوبکر صدیقؓ مکارم اَخلاق کی تعلیم و تکمیل فرمانے والے پیارے محبوبِ کریم ﷺ کے فیض یافتہ اور بچپن سے ہی آپ  کے قریبی دوست اور جانثار ساتھی رہے ہیں۔ آپ سعید طبیعت کے خوبصورت پیکر تھے۔ آپ ظہورِ اسلام سے قبل ہی اَخلاقِ حمیدہ سے متصف تھے۔

مکارمِ اَخلاق :

اِسلام کا اَصل مقصد اِیمان والوں کو تزکیۂ نفس اور تطہیر باطن کے ذریعہ اعلیٰ اَخلاق و صفات سے مُتَّصِف کرنا ہے۔ حضورؐ نے اپنی غرضِ بعثت مکارم اَخلاق کی تکمیل بیان فرمائی ہے۔

حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی فطرت چونکہ سعید تھی‘ اِس لئے آپ عہدِ جاہلیت میں بھی اَخلاقِ حمیدہ سے مُتَّصِف تھے۔ اُس زمانہ میں بھی کبھی آپ نے اُم الخبائث شراب کو منہ نہیں لگایا۔ جواء کی مجلس میں کبھی شریک نہیں ہوتے تھے۔ کسی بُت کے آگے کبھی سر خمیدہ نہیں ہوئے، حالانکہ یہ تینوں چیزیں عربوں کی گھٹی میں داخل تھیں۔ اِس کے علاوہ غریبوں کی خبر گیری‘ بے کسوں اور اَپاہجوں کی مدد‘ مسافر نوازی اور مہمان داری آپ کے خاص اَوصاف ہیں۔ پھر شرف اِسلام سے مشرف ہوئے تو اِن اَوصاف پر اور جِلا ہوئی اور آپ مکارم و محامدِ اخلاق کے پیکرِ اتم بن گئے۔

تقویٰ وطہارت:

آپؓ کے صحیفۂ اَخلاق میں سرفہرست تقویٰ و طہارت کا وصف ہے۔ جس طرح ایک تندرست معدہ مکھی یا اِسی طرح کی کوئی اور نجس چیز کو برداشت نہیں کر سکتا۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کا معدہ کسی ایسی چیز کو برداشت نہیں کرتا تھا جو معنوی نجاست و گندگی رکھتی تھی۔ ایک مرتبہ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے ایک غلام نے کوئی چیز لا کر دی۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے جب اُس کو کھا لیا تو غلام بولا‘ آپ جانتے ہیں وہ کیا چیز تھی؟ پوچھا کیا تھی؟ اُس نے جواب دیا کہ میں عہدِ جاہلیت میں جھوٹ موٹ کہانت کا کام کرتا تھا یہ چیز اُسی کا معاوضہ تھی۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے سُنتے ہی قے کردی اور جو کچھ پیٹ میں تھا نکال کر دیا۔ 

غایتِ تقویٰ و طہارت کے باعث جس طرح سیّدنا صدیق اکبرؓ کا معدہ کسی ناجائز چیز کو گوارا نہیں کرتا تھا ۔ اِسی طرح اُن کے قدم اُس راہ میں بھی نہیں اُٹھتے تھے جس میں فُسّاق و فجار رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص آپ کو ایک راستہ سے اپنے گھر لے جا رہا تھا۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ اُس سے واقف نہیں تھے۔ پوچھا یہ کونسا راستہ ہے؟ اُس شخص نے کہا‘ اِس راستہ میں اَیسے لوگ رہتے ہیں جن کے پاس سے گزرتے ہوئے بھی ہم کو شرم آتی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: کیا خوب ! گزرتے ہوئے شرم بھی آتی ہے اور پھر بھی اُسی راہ سے جا رہے ہو۔ اچھا! تم جائو میں نہیں جائوں گا۔

تواضع اور سادگی :

سیّدنا ابوبکر صدیقؓ اگرچہ نہایت جلیل القدر خلیفہ تھے لیکن غریبوں اور ضرورت مند لوگوں کا معمولی سے معمولی کام کرنے میں بھی اُن کو ہچکچاہٹ نہیں ہوتی تھی اور نہایت خاموشی سے وہ اَیسے کام کرنے میں بڑی مسرّت محسوس کرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں ایک نابینا عورت تھی جس کا کام کاج  سیّدنا عمر فاروقؓ آ کر کر دیتے تھے لیکن چند روز کے بعد اُنہیں معلوم ہواکہ اُن سے پہلے کوئی اور شخص آ کر اِس عورت کے تمام کام کر جاتا ہے۔ اُن کو اَب یہ معلوم کرنے کا اشتیاق ہوا کہ یہ کون شخص ہے؟ ایک شب وہ اُس کی جستجو میں کہیں چھپے بیٹھے رہے تو یہ دیکھ کر اُن کی حیرت کی اِنتہا نہ رہی کہ یہ شخص امیر المؤمنین ابوبکر صدیقؓ ہیں جو خلیفہ ہونے کے باوجود پوشیدہ طور پر اُس نابینا عورت کے گھر آتے ہیں اور اُس کے تمام گھریلو کام کر جاتے ہیں۔

اِنکساری و تواضع اور فروتنی کی اِنتہا یہ تھی کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کاخلیفہ ہونے کی حیثیت سے تعظیم و تکریم کے آداب بجالاتے تھے تو دِل میں شرمساری محسوس کرتے تھے اور فرماتے تھے ’’تم لوگوں نے مجھ کو بہت بڑھا چڑھا دیا ہے۔‘‘ اگر کسی سے مدح و ستائش کے اَلفاظ سُن لیتے تو دِل ہی دِل میں کہتے کہ ’’اے اللہ تُو مجھ کو اِن لوگوں کے حسنِ ظن کے مطابق بنا، میرے گناہوں کو معاف کر دے اور اِن لوگوں کی بیجا تعریف پر میری پکڑ نہ کر۔‘‘

اللہ کی راہ میں قدم:

جب آپؓ نے حضرت یزید بن ابو سفیان ؓ کو  شام کے چوتھائی حصّہ کا اَمیر بنایا تو اُن کی مشایعت میں یعنی ساتھ ساتھ چلنے کے لئے پیدل (شہر سے) باہر نکل آئے۔ حضرت یزید بن  ابو سفیان ؓ نے کہا یا تو آپ سوار ہو جائیں یا میں بھی نیچے اُتر آؤں تو امیر المؤمنین ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا نہ تو آپ اُتریں اور نہ میں سوار ہوں گا۔ میں تو بہ نیت عبادت اپنے قدم اللہ کی راہ میں اُٹھا رہا ہوں۔

Khalifa Awal Syedna Sidiq e Akbar R.A

خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر


اِسم گرامی :
حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کا اِسم گرامی عبد اللہ بن عثمان ابوقحافہؓ ہے۔ آپ کے ساتویں دادا یعنی مُرَّہ‘ نبی کریم ﷺ کے سلسلۂ مبارک سے ملتے ہیں۔ آپ کا لقب صدیق آسمانوں سے اُترا اور کنیت عتیق ہے۔ والدِ ماجد کا نام عثمان اورکنیت ابوقحافہ ہے۔ والدہ ماجدہ کا نام سلمیٰ ؓ اور کنیت اُم الخیر تھی۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ قریش کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی وِلادت عام الفیل کے اڑھائی برس بعد ہوئی یعنی سن ہجری کے آغاز سے پچاس برس چھ 
First Caliph
ماہ قبل۔
آپ کے والدین ، آپ ، آپ کی اَولاد اور آپ کی اَولاد کی اَولاد یعنی چار پُشتیں صحابی ہیں۔ مثلاً عبداللہ بن اسماء بنت ابوبکر بن ابوقحافہ اور ابوعتیق بن عبدالرحمن بن ابوبکر بن ابوقحافہؓ ۔  یہ اعزاز سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے خاندان کے سواکسی کو حاصل نہیں ہوا۔ آپ عشرہ مبشرہ میں سے بھی ہیں۔
عتیق کہلانے کی وجہ:
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے اُن کو دیکھا تو فرمایا: اَنْتَ عَتِیْقُ اللّٰہِ مِنَ النَّارِ ’’تم اللہ کی طرف سے دوزخ سے آزاد ہو۔‘‘ اُسی وقت سے اُن کا لقب عتیق پڑ گیا۔ اِس کے علاوہ اُمُّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے بھی صاف تصریح ہے کہ عتیق آپ ہی کا لقب ہے۔
ظہورِ اسلام سے قبل ہی آپ بہت بڑے رئیس اور صاحبِ وجاہت تھے اور قریش کے رؤساء میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیقؓ اَیسے شخص تھے جن کی ذات پر قوم جمع ہو جاتی تھی۔ صاحبِ خلق ‘ صاحبِ خیر‘ عالی نسب ‘ نسب دان ‘ بلند مرتبہ تاجر اور عظیم اِنسان تھے۔ خون بہا کا فیصلہ آپ کے سپرد تھا اور تمام قریش آپ کے فیصلہ کی تصدیق و تائید کرتے ہوئے خون بہا کا بھار برداشت کرتے تھے۔ جب نبی کریم ﷺ نے دعوتِ اِسلام دی تو مَردوں میں سب سے پہلے سیّدنا ابوبکر صدیقؓ اِسلام لائے۔ پھر آپ کی دعوت پر عشرہ مبشرہ میں سے پانچ صحابہ کرام اِسلام لائے۔ (۱) حضرت عثمان بن عفان‘ (۲) حضرت زبیر بن عوام (۳) حضرت عبد الرحمان بن عوف (۴) حضرت سعد بن ابی وقاص اور (۵) حضرت طلحہ بن عبید اللہ۔ نیز آپ کی دعوت پر آپ کے والدین اور آپ کے دو بیٹے اور پوتے اور ایک نواسہ مشرف بہ اِسلام ہوئے۔ حضور ﷺ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی بڑی قدر فرماتے اور اُن کے سامنے اُن کی تعریف فرمایا کرتے تھے اور دوسروں سے بھی اُن کی تعریف سُناکرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جناب رسولِ کریم ﷺ نے حضرت حسّانؓ سے فرمایا: اے حسّان تُو نے ابوبکر کے بارے میں کچھ کہا ہے۔ تو حضرت حسّانؓ نے عرض کیا‘ جی ہاں: چنانچہ اُنہوں نے یہ شعر پڑھے:
وَثَانِیَ اثْنَیْنِ فِی لْغَارِالْمَنِیْفِ
 وَقَدْطَافَ الْعَدُوُّبِہٖ اِذْصَعِدُواالْجَبَلاً
وَکَانَ حَبَّ  رَسُوْلِ اللّٰہِ قَدْ عَلِمُوْا
خَیْرُالْبَرِیَّۃِ لَمْ یَعْدِلْ بِہٖ رَجُلاً
’’وہ مبارک غار میں دو میں دوسرے ہیں۔ دشمنوں نے آپ کا گھیراؤ کیا جب کہ وہ پہاڑ پر چڑھے اور آپ جنابِ رسولِ خدا ؐکے محب ہیں۔ لوگ جانتے ہیں‘ ساری مخلوق سے بہتر ذات ستودہ صفات نے آپ ﷺ کے برابرکسی شخص کو نہیں کیا۔‘‘
یہ اَشعار سُن کر آپ ﷺ اِس قدر مسکرائے کہ آپ ﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے پھر فرمایا: تم نے بالکل سچ کہا۔ واقعی ابوبکر اَیسے ہی ہیں۔
صدیق کہلانے کی وجہ:
آپ کا دوسرا لقب صدیق تھا۔ بعض لوگ اِس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے سب سے پہلے اِسلام قبول کیا تھا۔ لیکن جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے‘ اِس کی زیادہ صحیح وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے شبِ معراج میں (حضرت) جبرائیلِؑ سے پوچھاکہ میری قوم میں اِس واقعہ کی تصدیق کون کرے گا؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ’’ابوبکر آپ ﷺ کی تصدیق کریں گے۔ وہ صدیق ہیں۔‘‘
سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے‘ فرماتی ہیں ‘جب حضور ﷺ کو مسجدِ اقصیٰ کی طرف لے جایا گیا تو صبح لوگوں نے اِس کا چرچا کیا تو کچھ اَیسے بھی تھے جو دین سے پھرنے لگے جو آپؐ پر اِیمان لے آئے تھے اور آپؐ کی تصدیق کر چکے تھے اور یہ لوگ اِس خبر کو لے کر ابو بکر صدیقؓ کے پاس دوڑے گئے اور کہنے لگے کیا تمہیں اپنے صاحب کی بھی خبر ہے۔ وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اُن کو آج رات بیت المقدّس لے جایا گیا تو سیّدنا ابوبکر صدیق نے فرمایا: اگر اُنہوں نے اَیسا فرمایا ہے تو سچ فرمایا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ تم اُن کی اِس بات کی تصدیق کرتے ہو کہ رات میں بیت المقدس پہنچ گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آ گئے۔ آپؓ نے فرمایا کہ میں تو اُن کی اُس بات کی بھی تصدیق کرتا ہوں جو اِس سے بھی بعید ہے۔ میں اُن کی اُن آسمان کی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں جو وہ صبح و شام میں دیتے ہیں اِس بنا پر اُن کا نام ابوبکر صدیق ہو گیا۔  
مال کے ذریعے قربانی :
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے روایت فرماتے ہیں: ’’بے شک جس نے میرے ساتھ اپنی جان اور مال کے ذریعے لوگوں سے بڑھ کر اِحسان کیا ہے وہ ابوبکرؓ ہیں۔‘‘
مالِ صدیقی کا فائد ہ :
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: ’’مجھے کسی کے مال نے اِتنا نفع نہ دیا جتنا ابوبکرؓ کے مال نے (نفع) دیا ہے۔ سو (حضرت) ابوبکرؓ رونے لگے اور عرض کیا‘ یارسول اللہ ؐ میں اور میرا مال سب آپؐ ہی کا تو ہے۔‘‘
ابتدائِ اِسلام اور غربتِ مسلمین میں اور رسول کریمؐ کی خدمت ِاَقدس پر سیّدنا ابوبکر صدیقؓنے چالیس ہزار درہم خرچ کئے۔ حضرت ہشام بن عروہؒ روایت کرتے ہیں اُنہوں نے کہا ’’سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے جب اِسلام قبول کیا اُس وقت اُن کے پاس چالیس ہزار درہم تھے جو سب کے سب اللہ اور رسول کریمؐ  کے راستے میں خرچ کر دیئے۔‘‘ 
اِحسان کا بدلہ:
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہ ؐ نے اِرشاد فرمایا: ’’ہم پرکسی کا اِحسان نہیں مگر ہم نے اُس کابدلہ اَداکر دیا سوائے ابوبکرؓ کے کہ ہم پراُن کا اِحسان ہے کہ اللہ اُنہیں اِس کا بدلہ قیامت کے دن عطا فرمائے گا۔‘‘ 
سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے پیچھے نماز :
اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ ‘حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریمؐ بیمار ہوئے اور آپؐ کی بیماری شدید ہو گئی تو آپؐ نے فرمایا: ’’ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘
اِمامت کاحق:
حضرت عائشہ صدیقہؓ کا اِرشاد پاک ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جس قوم میں ابوبکرؓ ہوں اُن کے ہوتے ہوئے کوئی اور اِمامت کے لائق نہیں۔‘‘
چنانچہ حضرت عبداللہ بن زمعہؓ فرماتے ہیں‘ ایک مرتبہ جبکہ رسول اللہ ؐ پر بیماری کی شدّت تھی۔ میں آپؐ  کے پاس چند صحابہ کرامؓ کی معیّت میں بیٹھا ہوا تھا کہ اِتنے میں (حضرت) بلالؓ آپؐ کو نماز کے واسطے بلانے کے لیے حاضر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کسی اور کو حکم کرو۔‘‘ (حضرت) عبداللہ بن زمعہؓ فرماتے  ہیں‘ میں باہر نکلا تو حضرت عمر بن خطابؓ ملے۔ اُس وقت ابوبکرؓ موجود نہ تھے۔
وہ (عمر فاروقؓ) آگے بڑھے اور اُنہوں نے تکبیر کہی جب رسولِ کریمؐ نے اُن کی آواز سُنی۔ سیّدنا عمر بن خطابؓ بڑی آواز والے آدمی تھے۔ آپؐ نے فرمایا۔ ابوبکرؓ کہاں ہیں؟ اللہ اِس کا اِنکار فرماتا ہے اور اللہ کی طرح مسلمان بھی اِنکارکرتے ہیں۔ پھر آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو بلوایا۔ اُنہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی وہی نماز جس کو سیّدنا عمر بن خطابؓ پڑھا چکے تھے۔
دوسری حدیث پاک جو اِنہی سے مروی ہے اُس میں ہے کہ ’’جب رسول اﷲ ؐ نے امیر سیّدنا عمر فاروقؓ کی آواز کو سُنا تو آپؐ نکلے یہاں تک کہ اپنا سرِانور حجرہ سے باہر نکالا اور تین مرتبہ فرمایا:  لَا لا لَا نہیں نہیں نہیں۔ لوگوں کو (حضرت) ابوقحافہؓ کے بیٹے نماز پڑھائیں۔‘‘ 

علامہ منیر احمد یوسفی 

Hazrat Syedna Sidiq e Akbar R.A

حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ 


دل و جاں سے فدائے مصطفیؐ ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
رفیق ِ خلوتِ خیر الوریٰؐ ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
رہِ اہل ِ صفا کے رہنما ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں

کہ محبوبِؐ خدا کے دلربا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
پیمبرؐ پر ہے جاں جن کی فدا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
کیا حق نے جنہیں سب کچھ عطا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں


Hazrat Syedna Sidiq e Akbar R.A

نبوت کی معیت میں سدا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
سراپا عشق ، سر تا پا وفا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
نبیؐ کے صِھر ، مردِ بے ریا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں

سبھی رشتے نبھائے خوش ادا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
رہے وہ متّبِع کامل صحابی بھی ، خلیفہ بھی
وہی اہل ِ وِلا کے پیشوا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں

تجلی ریز ہے مینار دنیا میں صداقت کا
ریاضِ خلد کی بادِ صبا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
شہِؐ دوراں ہمارے دستگیر اِمروز و فردا کے

ہماری آرزو اور مدعا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
علیؓ کے ہم نوا ، حسنینؓ کے ہیں مونس و ہمدم
بہ جاں آلِ عباؑ پر وہ فدا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں

کیا قربان سارا گھر نبیؐ کے اِک اشارے پر
وہ اہل ِ ہمت و جود و سخا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
گرامی قدر ابو سیّدہ حضرت حمیراؓ کے

وہ ختم الانبیائؐ کے ہم نوا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
رہے وہ عمر بھر شاداں محمدؐ کی غلامی پر
معینؔ الحق ! عجب مردِ خدا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
ﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺ


کلام: پیر غلام معین الحق گیلانی گولڑہ شریف

Sunday

Shair e Khuda Hazrat Ali R.A

شیرِِ خدا سیدنا علی المرتضےٰ رضی اللہ عنہ


خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضٰی ؓکے فضائل و مناقب اور کارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق روشن ہیں جس سے  لوگ قیامت تک  ہدایت و راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضور  ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم میری طرف سے اس مرتبہ پر ہو جس مرتبہ پر حضرت ہارون ؑ، حضرت موسیٰ ؑکی طرف سے تھے، مگر بات یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ (بخاری و مسلم)
Shair e Khuda Hazrat Ali R.A

آپ کا نام علی، لقب حیدر و مرتضٰیٰ، کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے۔ آپ کے والد ابو طالب اور حضور    ﷺ             کے والد ماجد
 حضرت عبد اللہ دونوں حقیقی بھائی ہیں۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد تھیں۔ماں باپ دونوں کی نسبت سے سیدنا حضرت علیؓ میں ہاشمی سرداروں کی تمام خصوصیات موجود تھیں۔  چہرہ مبارک پر عبادت و ریاضت کے آثار پائے جاتے تھے۔  بڑی آنکھیں اورکشادہ پیشانی پر سجدے کے نشان تھے۔ معمولی لباس اور سادہ  عمامہ  زیب تن فرماتے۔ آپ کی گفتگو علم و حکمت اور دانائی سے بھرپور ہوتی۔ آپ نے بچپن  ہی سے ہی حضور ﷺ  کی  آغوشِ محبت میں پرورش پائی اور  حضور ﷺ  کی سب سے چھوٹی  بیٹی خاتونِ جنت سیدہ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا۔ حضرت علیؓ اعلیٰ درجہ کے خطیب ، میدانِ جنگ میں تلوار کے دھنی اور مسجد میں زاہدِ شب بیدارمانے جاتے تھے۔ آپ مفتی و قاضی اور علم و عرفان  میں بے مثل خصوصیات کی مالک تھے۔ علیؓ ابن ابو طالب نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے آپ کو نمک، کھجور، دودھ گوشت سے رغبت تھی، غلاموں کو آزاد کرتے اور کھیتی کی دیکھ بھال کرتے۔ اپنے دور خلافت میں آپ بازاروں کا چکر لگا کر قیمتوں کی نگرانی فرماتے، گداگری سے لوگوں کو منع فرماتے ۔ جب نماز کا وقت آتا تو آپ کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ ’’اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر اتارا تو وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے عاجز ہو گئے‘‘ ۔ آپ  میں تقویٰ اور خشیت الٰہی بہت زیادہ تھی، ایک بار آپ ایک قبرستان میں بیٹھے تھے کہ کسی نے کہا کہ! اے ابو الحسن آپ یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ فرمایا میں ان لوگوں کو بہت اچھا ہم نشین پاتا ہوں یہ کسی کی بدگوئی نہیں کرتے اور آخرت کی یاد دلاتے ہیں۔ایک مرتبہ آپ قبرستان میں تشریف لے گئے اور وہاں پہنچ کر قبر والوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا!اے قبر والوں! اے بوسیدگی والو! اے وحشت و تنہائی والو! کہو کیا خبر ہے کیا حال ہے، ہماری خبر تو یہ ہے کہ تمہارے جانے کے بعد مال تقسیم کر لیے گئے  اور اولادیں یتیم ہو گئیں بیویوں نے دوسرے شوہر کر لیے… یہ تو ہماری خبر ہے، تم بھی اپنی خبر سنائو! اس وقت کمیل نامی شخص آپ کے ہمراہ تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت علیؓ نے فرمایا کہ! اے کمیل اگر ان (مردوں) کو بولنے کی اجازت ہوتی تو یہ جواب دیتے کہ بہترین سامانِ آخرت پرہیز گاری ہے ۔اس کے بعد حضرت علیؓ رونے لگے اور فرمایا اے کمیل قبر اعمال کا صندوق ہے اور موت کے وقت یہ بات معلوم ہوتی ہے، ایک مرتبہ جلیل القدر صحابی سیدنا حضرت امیر معاویہؓ کے اصرار پر ضرار اسدیؒ نے خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علیؓ کے اوصاف و صفات بیان کرتے ہوئے کہا کہ !  ’’ اللہ کی قسم حضرت علی المرتضٰیؓ بڑے طاقتور تھے، فیصلے کی بات کہتے تھے اور انصاف کے ساتھ حکم دیتے تھے۔ علم و حکمت کے دریا ان کے اطراف سے بہتے جو دنیا اور اس کی تازگی سے متوحش ہوتے تھے۔حضرت علی ؓ رات کی تنہائیوں اور وحشتوں سے انس حاصل کرتے تھے۔ روتے بہت تھے اور فکر میں زیادہ رہتے تھے،وہ ہمیشہ اھلِ دین کی تعظیم کرتے تھے اور مساکین کواپنے پاس بٹھاتے تھے کبھی کوئی طاقتور اپنی طاقت کی وجہ سے ان سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی امید نہ کر سکتا تھا اور کوئی کمزور ان کے انصاف سے مایوس نہیں ہوتا تھا ‘‘۔یہ سن کر سیدنا حضرت امیر معاویہ ؓرونے لگے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو ابو 
الحسنؓ (علیؓ) پر اللہ کی قسم وہ ایسے ہی تھے۔
Shair e Khuda Hazrat Ali R.A

 سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ غزوہ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے، ہر معرکہ میں سیدنا حضرت علیؓ نے اپنی 
شجاعت و بہادری اور فداکاری کا لوہا منوایا  احد و بدر، خندق و حنین اور خیبر میں اپنی جرأت و  بہادری کے  جوہر دکھائے۔ایک موقع پر  حضور ﷺ  ؐنے فرمایا کہ! ’’علیؓ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں‘‘  ۔ہجرت کی شب   حضور ﷺکے بستر مبارک پر آرام فرما ہوئے،  آپ نے آخری وقت میں  حضور ﷺ   کی تیمارداری کے فرائض سرانجام دیئے اور دیگر صحابہ کرامؓ کے ہمراہ آپ کو ’’غُسلِ نبوی ﷺ‘‘ کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ آپ ’’عشرہ مبشرہ‘‘ جیسے خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہیں جن کو ﷺ   نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت و خوشخبری دے  دی تھی۔
     9؁ھ میں جب ﷺ نے خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ’’امیر حج‘‘ بنا کر روانہ کیا اور ان کی روانگی کے بعد سورہ برأت نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ پر ﷺ نے سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ کو مامور کیا، آپ کو بچپن میں قبولِ اسلام کی سعادت نصیب ہوئی اور بچوں میں سے سب سے پہلے آپ ہی دولتِ ایمان سے منور ہوئے، آپ کو ’’السابقون الاولون‘‘ میں بھی خاص مقام اور درجہ حاصل ہے۔
آپ ’’بیعتِ رضوان‘‘ میں شریک ہوئے اور ’’اصحابُ الشجرہؓ‘‘ کی جماعت میں شامل ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں راضی ہونے اور جنت کی بشارت و خوشخبری دی۔ آپ ’’اصحابِ بدرؓ‘‘ میں سے بھی ہیں جن کی تمام خطائیں اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیں۔حضورﷺ نے حضرت علی المرتضٰیؓ سے بغض رکھنے کو محرومی کا سبب قرار دیا۔ آپ بہت زیادہ عبادت گزار تھے۔  اُمّ المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ بہت زیادہ روزہ دار اور عبادت گزار تھے۔ آپ بہت زیادہ سخاوت کرنے والے تھے کوئی سائل و حاجت مند آپ کے در سے خالی نہ جاتا تھا… آپ قرآن مجید کے حافظ اور اس کی ایک ایک آیت کے معنیٰ اور شانِ نزول سے واقف تھے۔ سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ ہی وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں جن کو  حضور ﷺ نے جنگ خیبر کے موقعہ پر فتح کا جھنڈا عنایت فرمایا۔ آپ کی آنکھیں آشوب کی ہوئی تھیں حضور ﷺ   نے فرمایا کہ حضرت علیؓ کو بلاؤ، پیش ہونے پر  حضور ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا، پھر  حضور ﷺ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا (صحیح بخاری و مسلم) خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ نے تین ماہ کم پانچ سال تک تختِ خلافت پر متمکن رہے۔اس  کے بعد عبد الرحمن بن ملجم خارجی کے ہاتھوں زخمی ہو کر 21رمضان المبارک کو شہادت  پا کر کوفہ کے نز دیک مقام نجف میں دفن ہوئے۔ 
رضی اللہ تعالیٰ عنہ

مولانا مجیب الرحمن انقلابی