Monday

Khalifa Awal Syedna Sidiq e Akbar R.A

خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر


اِسم گرامی :
حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کا اِسم گرامی عبد اللہ بن عثمان ابوقحافہؓ ہے۔ آپ کے ساتویں دادا یعنی مُرَّہ‘ نبی کریم ﷺ کے سلسلۂ مبارک سے ملتے ہیں۔ آپ کا لقب صدیق آسمانوں سے اُترا اور کنیت عتیق ہے۔ والدِ ماجد کا نام عثمان اورکنیت ابوقحافہ ہے۔ والدہ ماجدہ کا نام سلمیٰ ؓ اور کنیت اُم الخیر تھی۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ قریش کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی وِلادت عام الفیل کے اڑھائی برس بعد ہوئی یعنی سن ہجری کے آغاز سے پچاس برس چھ 
First Caliph
ماہ قبل۔
آپ کے والدین ، آپ ، آپ کی اَولاد اور آپ کی اَولاد کی اَولاد یعنی چار پُشتیں صحابی ہیں۔ مثلاً عبداللہ بن اسماء بنت ابوبکر بن ابوقحافہ اور ابوعتیق بن عبدالرحمن بن ابوبکر بن ابوقحافہؓ ۔  یہ اعزاز سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے خاندان کے سواکسی کو حاصل نہیں ہوا۔ آپ عشرہ مبشرہ میں سے بھی ہیں۔
عتیق کہلانے کی وجہ:
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے اُن کو دیکھا تو فرمایا: اَنْتَ عَتِیْقُ اللّٰہِ مِنَ النَّارِ ’’تم اللہ کی طرف سے دوزخ سے آزاد ہو۔‘‘ اُسی وقت سے اُن کا لقب عتیق پڑ گیا۔ اِس کے علاوہ اُمُّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے بھی صاف تصریح ہے کہ عتیق آپ ہی کا لقب ہے۔
ظہورِ اسلام سے قبل ہی آپ بہت بڑے رئیس اور صاحبِ وجاہت تھے اور قریش کے رؤساء میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیقؓ اَیسے شخص تھے جن کی ذات پر قوم جمع ہو جاتی تھی۔ صاحبِ خلق ‘ صاحبِ خیر‘ عالی نسب ‘ نسب دان ‘ بلند مرتبہ تاجر اور عظیم اِنسان تھے۔ خون بہا کا فیصلہ آپ کے سپرد تھا اور تمام قریش آپ کے فیصلہ کی تصدیق و تائید کرتے ہوئے خون بہا کا بھار برداشت کرتے تھے۔ جب نبی کریم ﷺ نے دعوتِ اِسلام دی تو مَردوں میں سب سے پہلے سیّدنا ابوبکر صدیقؓ اِسلام لائے۔ پھر آپ کی دعوت پر عشرہ مبشرہ میں سے پانچ صحابہ کرام اِسلام لائے۔ (۱) حضرت عثمان بن عفان‘ (۲) حضرت زبیر بن عوام (۳) حضرت عبد الرحمان بن عوف (۴) حضرت سعد بن ابی وقاص اور (۵) حضرت طلحہ بن عبید اللہ۔ نیز آپ کی دعوت پر آپ کے والدین اور آپ کے دو بیٹے اور پوتے اور ایک نواسہ مشرف بہ اِسلام ہوئے۔ حضور ﷺ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی بڑی قدر فرماتے اور اُن کے سامنے اُن کی تعریف فرمایا کرتے تھے اور دوسروں سے بھی اُن کی تعریف سُناکرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جناب رسولِ کریم ﷺ نے حضرت حسّانؓ سے فرمایا: اے حسّان تُو نے ابوبکر کے بارے میں کچھ کہا ہے۔ تو حضرت حسّانؓ نے عرض کیا‘ جی ہاں: چنانچہ اُنہوں نے یہ شعر پڑھے:
وَثَانِیَ اثْنَیْنِ فِی لْغَارِالْمَنِیْفِ
 وَقَدْطَافَ الْعَدُوُّبِہٖ اِذْصَعِدُواالْجَبَلاً
وَکَانَ حَبَّ  رَسُوْلِ اللّٰہِ قَدْ عَلِمُوْا
خَیْرُالْبَرِیَّۃِ لَمْ یَعْدِلْ بِہٖ رَجُلاً
’’وہ مبارک غار میں دو میں دوسرے ہیں۔ دشمنوں نے آپ کا گھیراؤ کیا جب کہ وہ پہاڑ پر چڑھے اور آپ جنابِ رسولِ خدا ؐکے محب ہیں۔ لوگ جانتے ہیں‘ ساری مخلوق سے بہتر ذات ستودہ صفات نے آپ ﷺ کے برابرکسی شخص کو نہیں کیا۔‘‘
یہ اَشعار سُن کر آپ ﷺ اِس قدر مسکرائے کہ آپ ﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے پھر فرمایا: تم نے بالکل سچ کہا۔ واقعی ابوبکر اَیسے ہی ہیں۔
صدیق کہلانے کی وجہ:
آپ کا دوسرا لقب صدیق تھا۔ بعض لوگ اِس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے سب سے پہلے اِسلام قبول کیا تھا۔ لیکن جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے‘ اِس کی زیادہ صحیح وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے شبِ معراج میں (حضرت) جبرائیلِؑ سے پوچھاکہ میری قوم میں اِس واقعہ کی تصدیق کون کرے گا؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ’’ابوبکر آپ ﷺ کی تصدیق کریں گے۔ وہ صدیق ہیں۔‘‘
سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے‘ فرماتی ہیں ‘جب حضور ﷺ کو مسجدِ اقصیٰ کی طرف لے جایا گیا تو صبح لوگوں نے اِس کا چرچا کیا تو کچھ اَیسے بھی تھے جو دین سے پھرنے لگے جو آپؐ پر اِیمان لے آئے تھے اور آپؐ کی تصدیق کر چکے تھے اور یہ لوگ اِس خبر کو لے کر ابو بکر صدیقؓ کے پاس دوڑے گئے اور کہنے لگے کیا تمہیں اپنے صاحب کی بھی خبر ہے۔ وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اُن کو آج رات بیت المقدّس لے جایا گیا تو سیّدنا ابوبکر صدیق نے فرمایا: اگر اُنہوں نے اَیسا فرمایا ہے تو سچ فرمایا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ تم اُن کی اِس بات کی تصدیق کرتے ہو کہ رات میں بیت المقدس پہنچ گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آ گئے۔ آپؓ نے فرمایا کہ میں تو اُن کی اُس بات کی بھی تصدیق کرتا ہوں جو اِس سے بھی بعید ہے۔ میں اُن کی اُن آسمان کی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں جو وہ صبح و شام میں دیتے ہیں اِس بنا پر اُن کا نام ابوبکر صدیق ہو گیا۔  
مال کے ذریعے قربانی :
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے روایت فرماتے ہیں: ’’بے شک جس نے میرے ساتھ اپنی جان اور مال کے ذریعے لوگوں سے بڑھ کر اِحسان کیا ہے وہ ابوبکرؓ ہیں۔‘‘
مالِ صدیقی کا فائد ہ :
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: ’’مجھے کسی کے مال نے اِتنا نفع نہ دیا جتنا ابوبکرؓ کے مال نے (نفع) دیا ہے۔ سو (حضرت) ابوبکرؓ رونے لگے اور عرض کیا‘ یارسول اللہ ؐ میں اور میرا مال سب آپؐ ہی کا تو ہے۔‘‘
ابتدائِ اِسلام اور غربتِ مسلمین میں اور رسول کریمؐ کی خدمت ِاَقدس پر سیّدنا ابوبکر صدیقؓنے چالیس ہزار درہم خرچ کئے۔ حضرت ہشام بن عروہؒ روایت کرتے ہیں اُنہوں نے کہا ’’سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے جب اِسلام قبول کیا اُس وقت اُن کے پاس چالیس ہزار درہم تھے جو سب کے سب اللہ اور رسول کریمؐ  کے راستے میں خرچ کر دیئے۔‘‘ 
اِحسان کا بدلہ:
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہ ؐ نے اِرشاد فرمایا: ’’ہم پرکسی کا اِحسان نہیں مگر ہم نے اُس کابدلہ اَداکر دیا سوائے ابوبکرؓ کے کہ ہم پراُن کا اِحسان ہے کہ اللہ اُنہیں اِس کا بدلہ قیامت کے دن عطا فرمائے گا۔‘‘ 
سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے پیچھے نماز :
اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ ‘حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریمؐ بیمار ہوئے اور آپؐ کی بیماری شدید ہو گئی تو آپؐ نے فرمایا: ’’ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘
اِمامت کاحق:
حضرت عائشہ صدیقہؓ کا اِرشاد پاک ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جس قوم میں ابوبکرؓ ہوں اُن کے ہوتے ہوئے کوئی اور اِمامت کے لائق نہیں۔‘‘
چنانچہ حضرت عبداللہ بن زمعہؓ فرماتے ہیں‘ ایک مرتبہ جبکہ رسول اللہ ؐ پر بیماری کی شدّت تھی۔ میں آپؐ  کے پاس چند صحابہ کرامؓ کی معیّت میں بیٹھا ہوا تھا کہ اِتنے میں (حضرت) بلالؓ آپؐ کو نماز کے واسطے بلانے کے لیے حاضر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کسی اور کو حکم کرو۔‘‘ (حضرت) عبداللہ بن زمعہؓ فرماتے  ہیں‘ میں باہر نکلا تو حضرت عمر بن خطابؓ ملے۔ اُس وقت ابوبکرؓ موجود نہ تھے۔
وہ (عمر فاروقؓ) آگے بڑھے اور اُنہوں نے تکبیر کہی جب رسولِ کریمؐ نے اُن کی آواز سُنی۔ سیّدنا عمر بن خطابؓ بڑی آواز والے آدمی تھے۔ آپؐ نے فرمایا۔ ابوبکرؓ کہاں ہیں؟ اللہ اِس کا اِنکار فرماتا ہے اور اللہ کی طرح مسلمان بھی اِنکارکرتے ہیں۔ پھر آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو بلوایا۔ اُنہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی وہی نماز جس کو سیّدنا عمر بن خطابؓ پڑھا چکے تھے۔
دوسری حدیث پاک جو اِنہی سے مروی ہے اُس میں ہے کہ ’’جب رسول اﷲ ؐ نے امیر سیّدنا عمر فاروقؓ کی آواز کو سُنا تو آپؐ نکلے یہاں تک کہ اپنا سرِانور حجرہ سے باہر نکالا اور تین مرتبہ فرمایا:  لَا لا لَا نہیں نہیں نہیں۔ لوگوں کو (حضرت) ابوقحافہؓ کے بیٹے نماز پڑھائیں۔‘‘ 

علامہ منیر احمد یوسفی 

No comments:

Post a Comment