Monday

Yaar e Ghaar Syedna Sidiq e Akbar R.A

یارِ غار:

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول کریم ﷺ نے سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو فرمایا: ’’تم میرے یارِ غار بھی ہو اور حوضِ کوثر پر بھی میرے ساتھی ہو۔‘‘

Yaar e Ghaar Syedna Sidiq e Akbar R.A

 

جنت کے بوڑھوں کے سردار :

سیّدنا علیؓ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم ﷺ کا اِرشادِ مقدس ہے:  ’’سیّدنا ابوبکرؓ اور سیّدنا عمر فاروقؓ اَنبیاء کرامؑ کے علاوہ تمام اَوّلین و آخرین کے بوڑھوں کے سردار ہیں۔ (سیّدنا علیؓ کو حکم فرمایا) اے علیؓ ! جب تک یہ زندہ ہیں اِن کو اِس بات کی خبر نہ دینا۔‘‘

وزیر :

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول  کریم ﷺ کا اِرشادِ مقدّس ہے : ’’کوئی نبی اَیسے نہیں ہوئے جس کے دو وزیر آسمان والوں اور دو وزیر زمین والوں میں نہ ہوئے ہوں۔ میرے دو وزیر آسمان والوں میں (حضرت) جبرائیلؑ اور (حضرت) میکائیلؑ ہیں جب کہ دو وزیر زمین والوں میں (حضرت) ابوبکرؓ اور (حضرت) عمر فاروقؓ ہیں۔‘‘

امیر المؤمنین حضرت سیدّنا ابوبکر صدیقؓ کا اَخلاق

سیّدنا ابوبکر صدیقؓ مکارم اَخلاق کی تعلیم و تکمیل فرمانے والے پیارے محبوبِ کریم ﷺ کے فیض یافتہ اور بچپن سے ہی آپ  کے قریبی دوست اور جانثار ساتھی رہے ہیں۔ آپ سعید طبیعت کے خوبصورت پیکر تھے۔ آپ ظہورِ اسلام سے قبل ہی اَخلاقِ حمیدہ سے متصف تھے۔

مکارمِ اَخلاق :

اِسلام کا اَصل مقصد اِیمان والوں کو تزکیۂ نفس اور تطہیر باطن کے ذریعہ اعلیٰ اَخلاق و صفات سے مُتَّصِف کرنا ہے۔ حضورؐ نے اپنی غرضِ بعثت مکارم اَخلاق کی تکمیل بیان فرمائی ہے۔

حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی فطرت چونکہ سعید تھی‘ اِس لئے آپ عہدِ جاہلیت میں بھی اَخلاقِ حمیدہ سے مُتَّصِف تھے۔ اُس زمانہ میں بھی کبھی آپ نے اُم الخبائث شراب کو منہ نہیں لگایا۔ جواء کی مجلس میں کبھی شریک نہیں ہوتے تھے۔ کسی بُت کے آگے کبھی سر خمیدہ نہیں ہوئے، حالانکہ یہ تینوں چیزیں عربوں کی گھٹی میں داخل تھیں۔ اِس کے علاوہ غریبوں کی خبر گیری‘ بے کسوں اور اَپاہجوں کی مدد‘ مسافر نوازی اور مہمان داری آپ کے خاص اَوصاف ہیں۔ پھر شرف اِسلام سے مشرف ہوئے تو اِن اَوصاف پر اور جِلا ہوئی اور آپ مکارم و محامدِ اخلاق کے پیکرِ اتم بن گئے۔

تقویٰ وطہارت:

آپؓ کے صحیفۂ اَخلاق میں سرفہرست تقویٰ و طہارت کا وصف ہے۔ جس طرح ایک تندرست معدہ مکھی یا اِسی طرح کی کوئی اور نجس چیز کو برداشت نہیں کر سکتا۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کا معدہ کسی ایسی چیز کو برداشت نہیں کرتا تھا جو معنوی نجاست و گندگی رکھتی تھی۔ ایک مرتبہ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے ایک غلام نے کوئی چیز لا کر دی۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے جب اُس کو کھا لیا تو غلام بولا‘ آپ جانتے ہیں وہ کیا چیز تھی؟ پوچھا کیا تھی؟ اُس نے جواب دیا کہ میں عہدِ جاہلیت میں جھوٹ موٹ کہانت کا کام کرتا تھا یہ چیز اُسی کا معاوضہ تھی۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے سُنتے ہی قے کردی اور جو کچھ پیٹ میں تھا نکال کر دیا۔ 

غایتِ تقویٰ و طہارت کے باعث جس طرح سیّدنا صدیق اکبرؓ کا معدہ کسی ناجائز چیز کو گوارا نہیں کرتا تھا ۔ اِسی طرح اُن کے قدم اُس راہ میں بھی نہیں اُٹھتے تھے جس میں فُسّاق و فجار رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص آپ کو ایک راستہ سے اپنے گھر لے جا رہا تھا۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ اُس سے واقف نہیں تھے۔ پوچھا یہ کونسا راستہ ہے؟ اُس شخص نے کہا‘ اِس راستہ میں اَیسے لوگ رہتے ہیں جن کے پاس سے گزرتے ہوئے بھی ہم کو شرم آتی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: کیا خوب ! گزرتے ہوئے شرم بھی آتی ہے اور پھر بھی اُسی راہ سے جا رہے ہو۔ اچھا! تم جائو میں نہیں جائوں گا۔

تواضع اور سادگی :

سیّدنا ابوبکر صدیقؓ اگرچہ نہایت جلیل القدر خلیفہ تھے لیکن غریبوں اور ضرورت مند لوگوں کا معمولی سے معمولی کام کرنے میں بھی اُن کو ہچکچاہٹ نہیں ہوتی تھی اور نہایت خاموشی سے وہ اَیسے کام کرنے میں بڑی مسرّت محسوس کرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں ایک نابینا عورت تھی جس کا کام کاج  سیّدنا عمر فاروقؓ آ کر کر دیتے تھے لیکن چند روز کے بعد اُنہیں معلوم ہواکہ اُن سے پہلے کوئی اور شخص آ کر اِس عورت کے تمام کام کر جاتا ہے۔ اُن کو اَب یہ معلوم کرنے کا اشتیاق ہوا کہ یہ کون شخص ہے؟ ایک شب وہ اُس کی جستجو میں کہیں چھپے بیٹھے رہے تو یہ دیکھ کر اُن کی حیرت کی اِنتہا نہ رہی کہ یہ شخص امیر المؤمنین ابوبکر صدیقؓ ہیں جو خلیفہ ہونے کے باوجود پوشیدہ طور پر اُس نابینا عورت کے گھر آتے ہیں اور اُس کے تمام گھریلو کام کر جاتے ہیں۔

اِنکساری و تواضع اور فروتنی کی اِنتہا یہ تھی کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کاخلیفہ ہونے کی حیثیت سے تعظیم و تکریم کے آداب بجالاتے تھے تو دِل میں شرمساری محسوس کرتے تھے اور فرماتے تھے ’’تم لوگوں نے مجھ کو بہت بڑھا چڑھا دیا ہے۔‘‘ اگر کسی سے مدح و ستائش کے اَلفاظ سُن لیتے تو دِل ہی دِل میں کہتے کہ ’’اے اللہ تُو مجھ کو اِن لوگوں کے حسنِ ظن کے مطابق بنا، میرے گناہوں کو معاف کر دے اور اِن لوگوں کی بیجا تعریف پر میری پکڑ نہ کر۔‘‘

اللہ کی راہ میں قدم:

جب آپؓ نے حضرت یزید بن ابو سفیان ؓ کو  شام کے چوتھائی حصّہ کا اَمیر بنایا تو اُن کی مشایعت میں یعنی ساتھ ساتھ چلنے کے لئے پیدل (شہر سے) باہر نکل آئے۔ حضرت یزید بن  ابو سفیان ؓ نے کہا یا تو آپ سوار ہو جائیں یا میں بھی نیچے اُتر آؤں تو امیر المؤمنین ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا نہ تو آپ اُتریں اور نہ میں سوار ہوں گا۔ میں تو بہ نیت عبادت اپنے قدم اللہ کی راہ میں اُٹھا رہا ہوں۔

No comments:

Post a Comment