Friday

Matti Surkh Ho Gai (youm e ashura)

حضورﷺ نے اُم سلمہؓ کو مٹی عطا فرمائی

جو یوم عاشور کو سرخ ہو گئی

  حضرت امام حسینؓ ابھی حضورﷺ کی گود میں کھیلتے تھے اس وقت سے ہی آپ نے حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا تذکرہ عام کر دیا تھا۔ چنانچہ حضرت فضل بنت حارثؓ جو کہ حضرت عباسؓ کی زوجہ اور آنحضرت کی چچی ہیں۔ ان سے مروی ہے کہ ایک دن میں رسول اﷲﷺ کے پاس گئی اور حسینؓ کو آپﷺ کی گود میں دے کر ذرا دوسری طرف متوجہ ہو گئی اور پھر (مڑ کر میں نے جو آپﷺ کی طرف نظر اٹھائی تو) کیا دیکھتی ہوں کہ رسول اﷲﷺ کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے“۔ حضرت اُم فضلؓ کہتی ہیں: ”میں نے پوچھا اے ﷲ تعالیٰ کے نبی میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں آپﷺ کو کیا ہوا؟ آپﷺ نے فرمایا ابھی میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ میری امت (یعنی مسلمانوں ہی سے بعض لوگوں کی جماعت) میرے اس بیٹے کو عنقریب قتل کر دے گی۔ میں نے پوچھا ”کیا اس بیٹے کو“؟ آپﷺ نے فرمایا ”ہاں“۔ (مشکوٰة المصابیح، باب مناقب اہلیت) حضرت امام حسینؓ ابھی بچے تھے کہ آقائے دوجہاںﷺ نے حضرت اُم سلمہؓ کو اس جگہ کی مٹی عطا فرمائی جہاں امام حسینؓ نے شہادت پانا تھی۔ چنانچہ حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہے کہ حسنؓ اور حسینؓ دونوں میرے گھر میں رسول اﷲﷺ کے سامنے کھیل رہے تھے کہ جبرائیل امین علیہ السلام خدمت اقدسﷺ میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اے محمدﷺ بے شک آپﷺ کی امت میں سے ایک جماعت آپﷺ کے اس بیٹے حسینؓ کو آپﷺ کے بعد قتل کر دے گی اور آپﷺ کو (وہاں کی تھوڑی سی) مٹی دی۔ حضور اکرمﷺ نے اس مٹی کو اپنے سینہ مبارک سے چمٹا لیا اور روئے پھر فرمایا: اے اُم سلمہؓ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا شہید ہو گیا۔ اُم سلمہؓ نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ  دیا تھا اور وہ ہر روز اس کو دےکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہو جائے گی وہ دن عظیم ہوگا۔ (خصائص الکبریٰ 125:2، سرالشہادتیں 28، المعجم الکبیر للطبرانی 108:3)        نبی اکرمﷺ نے نہ صرف یہ کہ حضرت امام حسینؓ کی شہادت سے پہلے ہی خبر دے دی تھی بلکہ جس مقام پر حضرت امام حسینؓ نے شہادت پانا تھی اس مقام کی نشاندہی بھی فرما دی تھی۔ چنانچہ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: مجھ کوجبرائیل امین علیہ السلام نے خبر دی کہ میرا بیٹا حسینؓ میرے بعد زمین طف میں قتل کر دیا جائے گا اور جبرائیل علیہ السلام میرے پاس (اس زمین کی) یہ مٹی لائے ہیں اور انہوں نے مجھے بتایا کہ مٹی حسینؓ کا مدفن ہے۔ (سر الشہادتین:24) حضرت امام حسینؓ کی شہادت سے کئی سال پہلے صحابہ کرامؓ کے درمیان یہ بات شہرت پا چکی تھی کہ آپؓ کی شہادت کربلا کے مقام پر ہوگی۔ چنانچہ حضرت اُنسؓ روایت کرتے ہیں کہ بارش برسانے پر مامور فرشتے نےﷲ تعالیٰ سے حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضری کی اجازت مانگی جو مل گئی۔ اس دن حضورﷺ حضرت اُم سلمہؓ کے گھر تشریف فرما تھے فرشتے کی آمد پر رسول خداﷺ نے فرمایا۔ ”اے اُم سلمہؓ! دروازے کا خیال رکھنا کوئی اندر داخل نہ ہو“۔ اس اثناءمیں کہ آپؓ دروازے پر نگہباں تھیں حضرت امام حسینؓ آئے اور بزور اندر چلے گئے۔ وہ حضورﷺ کے کندھوں پر جا چڑھے۔ رسولﷲﷺ ان کو گود میں لے کر چومنے لگے تو فرشتے نے عرض کی: کیا آپﷺ اس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا ”ہاں“ فرشتے نے کہا: بے شک آپﷺ کی اُمت اس کو قتل کر دے گی اور اگر آپﷺ چاہیں تو میں آپﷺ کو وہ جگہ دکھا دوں جہاں یہ قتل کئے جائیں گے پس اس نے اپنا ہاتھ مارا اور آپﷺ کو سرخ مٹی دکھا دی۔ وہ مٹی اُم سلمہؓ نے لے لی اور اپنے کپڑے کے کونے میں باندھ لی۔ راوی فرماتے ہیں۔ ”ہم سنا کرتے تھے کہ حسینؓ کربلا میں شہید ہوں گے“۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ جو کہ حضور اکرمﷺ کو اپنی سب ازواج میں سے زیادہ محبوب تھیں ان کو مٹی عطا نہیں فرمائی اور نہ ہی کسی اور زوجہ مطہرہ کے سپرد فرمائی بلکہ حضرت اُم سلمہؓ کے حوالے فرمائی اور فرمایا کہ اے اُم سلمہؓ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو یہ سمجھ لینا کہ میرا بیٹا شہید ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپﷺ اپنی نگاہ نبوت سے یہ دیکھ رہے تھے کہ میرے بیٹے کی شہادت کے وقت ازواج مطہرات میں سے صرف اُم سلمہؓ ہی زندہ ہوں گی۔ چنانچہ جب واقعہ کربلا ظہور پذیر ہوا اس وقت صرف اُم سلمہؓ ہی زندہ تھیں۔ حضور اکرمﷺ کی باقی تمام ازواج مطہرات وفات پاچکی تھیں۔ محبوب خداﷺ نے نہ صرف یہ کہ اس جگہ کی نشاندہی فرما دی تھی بلکہ اس سن کی طرف اشارہ بھی فرما دیا تھا جس سن وسال حضرت امام حسینؓ کی شہادت ہونے والی تھی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت محمدﷺ کا فرمان ہے: ساٹھ ہجری کے سال اور لڑکوں کی امارت (حکومت) سےﷲ کی پناہ مانگو (البدایہ و النہایہ لابن کثیر، 321:8) حضور اکرمﷺ نے ساٹھ ہجری کے سال سے پناہ مانگنے کا حکم فرمایا تھا کیونکہ آپﷺ جانتے تھے کہ ساٹھ ہجری میں میرے جگر کے ٹکڑوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جائیں گے اور انہیں بڑی بے دردی سے شہید کر دیا جائے گا۔ جب حضرت امام حسینؓ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو لوگوں نے رخصت کی راہ دکھائی اور کہا کہ کوفی بے وفا ہیں۔ وہ دھوکہ کریں گے۔ اس کے باوجود آپؓ کے قدم منزل شہادت کی طرف کشاں کشاں بڑھ رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپؓ جانتے تھے کہ اتنی مدت کے انتظار کے بعد آج وہ مبارک گھڑی آ رہی ہے جس گھڑی میں میرے نانا جی کے جوہر شہادت کا ظہور تام ہونا قرار پایا ہے۔ وہ خود کو خوش نصیب تصور کر رہے تھے کہﷲ تعالیٰ نے میرے جسم کو شہادت عظمیٰ کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ چنانچہ سیدنا امام حسینؓ جب میدان کربلا پہنچے تو آپؓ نے اپنے ساتھیوں کو بارہا کہا کہ شہادت میرا مقدر ہو چکی ہے۔ مجھ کو تو شہید ہونا ہے لیکن میں تم پر شہادت ٹھونسنا نہیں چاہتا۔ تم میں سے جس کسی نے جانا ہے رات کے اندھیرے میں چلا جائے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ چونکہ آپؓ کو معلوم تھا کہ میری شہادت جوہر نبویﷺ کے ظہور تام کے لیے مقدر کر دی گئی ہے۔ اس لیے آپؓ نے جان دینے سے خود کو بچانے کی کوشش نہ کی۔ وہ کسی بھی لمحہ زندگی میں بارگاہ خداوندی میں اس انجام سے بچنے کی دعا کرتے نظر نہیں آئے اگر آپؓ دعا کرتے تو ممکن تھا کہ کربلا میں پانسا پلٹ جاتا اور اہلِ بیت کے ایک ایک فرد کے شہید ہونے کی بجائے یزیدی لشکر تہس نہس ہو جاتا۔ دعا سے حالات تو بدل جاتے ہیں لیکن اس طرح جوہر شہادت نبویﷺ کا ظہور ممکن نہ ہوتا۔ حضرت امام حسینؓ اگر چاہتے تو آسمان کی طرف توجہ فرماتے، خدا کی ذات قدیر بادلوں کو حکم کرتی، وہ برستے اور پیاس کی کوئی صورت نہ رہتی لیکن یہ شہادت نبویﷺ کا ظہور تھا اور شہادت جتنی مظلومیت اور غربت کی حالت میں ہو۔ جتنی بے کسی کی حالت میں ہو۔ اس قدر رتبے میں بلند سے بلند ترہوتی چلی جاتی ہے۔ حضرت امام حسینؓ پانی پی کر بھی شہید ہو سکتے تھے لیکن پانی پی کر شہید ہونا اور بات تھی اور پیاس کی شدت میں تڑپ تڑپ کر شہید ہونا اور بات ہے۔ مظلومیت کی یہ ساری کیفیات جوہر شہادت کے ظہور کے نقطہ کمال تک پہنچانے کے لیے تھیں۔ اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑی رگڑنے سے چشمہ پیدا ہو سکتا ہے تو نواسہءرسولﷺ کے لیے یہ بعید نہ تھا کہ آپؓ کے حکم سے میدانِ کربلا میں پانی کے کئی چشمے بہہ نکلتے۔ اگر آپؓ فرات کی طرف اشارہ کرتے تو فرات اپنا رخ بدل کر آپؓ کے قدموں میں آجاتا۔ الغرض آپؓ جو چاہتے خدا تعالیٰ کی ذات وہ کر دیتی مگر نہ آپؓ نے چاہا اور نہ خدا تعالیٰ کی ذات نے ایسا کیا۔ اس لیے کہ یہ سیرت النبیﷺ کا ایک ایسا باب رقم ہونے والا تھا جو حضورﷺکی ظاہری زندگی میں رقم نہ ہوسکا تھا۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت دس محرم الحرام کو بڑی شہرت، چرچے اور تحمل کے ساتھ رونما ہوئی۔

 مولاناقاری غلام رسول

No comments:

Post a Comment