Friday

Haqiqat Abadi Hai Maqam-e-Shabbiri

حقیقت ابدی ہے مقام شبیری

واقعہ کربلا صرف ایک جنگی داستاں ہی نہیں بلکہ تاریخِ اسلام کے ساتھ روحِ دین کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں حق و باطل کے تضاد کو واضح کرنے کےلئے نواسۂ رسولﷺ کو سامنے آنا پڑا ۔ اس آزمائش کی ابتداءسیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے عظیم فرزند حضرت اسمعیل ذبیح اللہ سے ہوتی ہے اور تکمیل خانوادہ اہل بیت نے حسینؓ کی امامت میں
لازوال تاریخ رقم کرکےاس باب کو عروج پر پہنچایا ۔ حقیقتا ً تاریخِ عالم میں ایسا کوئی اورمنظر دیکھنے کو نہیں ملتا ۔ علامہ اقبال ہزاروں سال کے اس سلسلے کو ایک شعرمیں بڑی خوبصورتی سے یوں سمیٹتے ہیں
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت جس کی حسینؓ ابتداءہے اسمٰعیلؑ
دونوں عظیم ہستیوں کی عظیم قربانیاں دونوں حرمت کے مہینوں میں پہلے سال کا آخری مہینہ قربانی کا پھر سال کا پہلا مہینہ بھی قربانی کا وہ بھی دس ذی الحج کو یہ بھی دس محرم کو ۔ وہ بھی نبی علیہ السلام کے لعل یہ بھی نبیﷺ کا کنبہ اور لعل ۔ ان کی یاد بھی ہر سال منائی جاتی ان کی یا دبھی ہر سال منائی جاتی ۔وہ بھی ذبیح عظیم یہ بھی شہید عظیم ۔ انہوں نے خواب نبھایا انہوں نے وعدہ نبھایا ۔ وہ صبر کی ابتداءیہ صبر کی انتہا ایک کعبہ بنانے والے دوسرے حرمت کعبہ بچانے والے ۔
خلافت کی جگہ ملوکیت کے قیام کی سازش جاری تھی۔ حکمرانوں کے خلاف اسی نفرت میں کوفہ اوربصرہ ظلم کے خلاف آواز کا مرکز بن گیااوراٹھنے والا سرقلم کرنے سے دریغ نہ کیا گیا۔ ایسی بربریت کے عالم میں کسی کو تو خلافت کی حمایت اور دین کی حفاظت کا فریضہ انجام دینا تھا لہذا نواسۂرسولﷺ جگر بتولؓ نے نانا کا پرچم اور بابا علیؓ کا عزم لےکر سوئے کوفہ رخت سفراختیار کیا تاکہ بھٹکے ہوئے یزیدی ٹولے کو رشدو ہدایت کا راستہ دکھایا جائے مگر یزید کے گورنر ابن زیاد نے امام حسین ؓ کا راستہ روک کر یزید کی بیعت کا حکم سنادیا ۔حضرت امام حسین ؓ نے اہل بیت سے فرمایا " معاملے کی نزاکت تو تم دیکھ رہے ہو ۔ دنیا نے اپنا رنگ بدل لیا، نیکی سے خالی ہوگئی۔ ہر طرف ہولناکی نے احاطہ کر لیا افسوس حق کو پس پشت ڈال دیا گیا اور باطل پر سر عام عمل ہو رہا ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مومن رضائے الٰہی کی خواہش کریں مگر میں حسین ابن علیؓ شہادت کی موت چاہتا ہوں کیونکہ ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا بھی جرم ہے "سیدنا امام حسینؓ کا عزم و بیان آپؓ کے بلند مقام اور خلوص نیت کا عکاس تھا۔آپؓ کا مقصود ومطلوب صرف شہادت عظیمی ہی تھی جو اعلیٰ کردار اور صبرو استقلال مقام کربلا میں دیکھا گیا ۔وہ نظارہ چشم فلک نے سوائے حضرت ابر اہیم ؑ و اسمٰعیل ؑ کے گھرانے کے کبھی نہیں دیکھا ۔عہد نبوت ہو یا دور خلافت ہر لحظہ ہر لمحہ ایثار و قربانی سے عبارت ہے ۔ غزوہ تبوک کا ارادہ باندھا جاتا ہے ۔ زاد راہ و زاد جہاد چاہئے تو عمر فاروق ؓاپنے گھر کا آدھا مال اسباب مسجد کے صحن میں لا رکھتے ہیں مگر جب حضرت ابوبکرصدیق ؓسے دریافت کیا کہ آپؓ کیا چھوڑ آئے تو یار غار نے فرمایا کہ گھر میں تو اللہ اور رسول اللہﷺ کا نام ہی چھوڑ ا ہے ۔ سب کچھ لاکر محبوب خداﷺ کے قدموں میں ڈھیر کر دیا ۔حضرت عمرؓ نے عدل کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو درے مارمارکرہلاک کردیا ۔ سزا کے بقیہ درے اس کی قبر پر برسائے ۔ اویس قرنیؓ نے حضورﷺکے دانت مبارک شہید ہونے کی خبر سن کر اپنے تمام دانت توڑ ڈالے ۔ امام حسنؓ نے اسلامی ریاست کو نفاق سے بچانے کےلئے خلافت سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ۔ ہر واقعہ ہر موقع اپنی جگہ بے مثال لازوال قربانی ہے مگر امام حسین ؓ مال و اسباب کے ساتھ اہل بیت کو بھی ساتھ لے آئے۔ کرب و بلااور غم والم کا سامنا کیا کہ ایک ایک کرکے تمام ساتھی تمام بچے اپنے بیٹے ، اپنے بھتیجے، اپنے بھانجے بھوک پیاس کے عالم میں شہید ہوتے دیکھے ۔ آپؓ لاشے اٹھا کر لاتے ۔آزمائش کی اس گھڑی میں امام حسین ؓحکم قرآن کی تصویر تھے،زندہ تعبیر تھے ۔ صبر اور نماز سے مدد لیتے اور خواتین کو صبر کی تلقین کرتے رہے۔ آپؓ عاشورہ کے دن بیمارزین العابدین کے علاوہ تنہا مرد رہ گئے تھے اور وقتِ شہادت آنے کو تھا تو صبرو استقلال کے کوہ گراں نے خیمہ میں موجود خواتین کو وصیت کی کہ جب میں دشمنوں کے ہاتھوں قتل کردیا جاﺅں تو میرے ماتم میں نہ گریبان چاک کرنا ، نہ اپنے رخساروں پر طمانچے مارنا نہ اپنا منہ زخمی کر نایہ حکم فرما کر لشکر یزیدی سے جا ٹکرائے ۔نماز عصر کا وقت ، جسم مبارک زخموں سے چور اور دشمنوں کا ہجوم ہے ۔ آسمان ساکت ہے زمین لہو رنگ خاموش دنگ ہے ۔وقت آن پہنچا کہ شہادت کی تکمیل ہو امامؓ سجدے میں سرجھکاتے ہیں اور لعین سرتن سے جدا کردیتے ہیں ۔خیموں میں آگ لگتی ہے اہل بیت کو قیدی بنا لیا جاتا ہے ۔حضرت امامؓ کے سجدے نے ایک جانب حق و باطل کو علیحدہ علیحدہ کر دیا دوسرے نا نا کی امت کےلئے شہادت کی کٹھن منزلوں کو آسان کیا ۔نبیﷺ کی آل نے اپنے عمل سے نبیﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے امت کے لئے میدان کربلا میں آکر نفاق کی تمام علامتوں کو بے نقاب کر دیا۔آج ہم اپنے اردگرد موجود نجس علامتوں کو دیکھتے ہیں تو حق و باطل ظالم مظلوم کا فرق کرنا قطعاً مشکل نہیں ۔خود غرض خائن اور نفاق کا مقابلہ حسینی رستے پر چل کر ممکن ہے ۔ہمیں حسینیت اور یزیدیت کو پہچان کر میدان عمل میں نکلنا ہوگا۔یہی نقارہ خدا ہے یہی جرس جمہور ہے۔ یاد رکھیں ۔
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی

 

عزیز ظفر آزاد

No comments:

Post a Comment