Sunday

Saydul Shuhda Hazrat Imam Hussain (R.A)

سید الشہدا حضرت سیّدنا اِمام حسینؓ

سید الشہداءحضرت سیّدنا اِمام حسینؓ کی ولادتِ مبارک 5 شعبان المعظم 4 ہجری کو مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ نبی کریم نے آپؓ کے کان میں اذان دی‘ منہ میں لعاب دہن ڈالا اور آپؓ کے لئے دُعا فرمائی۔ پھر
ساتویں دن آپؓ کا نام ”حسین“ رکھا اور عقیقہ کیا۔ حضرت سیّدنا اِمام حسینؓ کی کنیت‘ ابو عبداللہ اور لقب ”سبطِ رسول“ و ”ریحانِ رسول“ ہے۔ حدیث میں ہے‘ رسولِ کائناتﷺ نے فرمایا کہ حضرت ہارونؑ نے اپنے بیٹوں کا نام شبر و شبیر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا نام اُنہیں کے نام پر حسنؓ اور حسینؓ رکھا۔
حضرت علیؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ جب (سیّدنا) حسنؓ پیدا ہوئے تو آپﷺ تشریف لائے اور فرمایا، میرا بیٹا مجھے دکھاؤ، آپ نے اِس کا کیا نام رکھا ہے؟ حضرت علیؓ فرماتے ہیں، میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”حرب“ نہیں بلکہ اِس کا نام ”حسن“ ہے۔ پھر جب سیّدنا اِمام حسینؓ پیدا ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا، مجھے میرا بیٹا دکھاؤ آپ نے اِس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: نہیں‘ اِس کا نام ”حسین“ رکھو۔ جب تیسرے شہزادے پیدا ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا: مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، آپ نے اِس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”حرب“ نہیں بلکہ اِس کا نام ”محسن“ ہے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا”میں نے اِن کے نام (حضرت) ہارونؑ کے بیٹوں کے نام پر رکھے ہیں۔ اُن کے نام شبر، شبیر اور مبشر تھے۔“ (الادب المفرد، کنزالعمال، تہذیب تاریخ دمشق لا بن عساکر)
اِسی لئے حسنین کریمینؓ کو شبر و شبیر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ سُریانی زبان میں شبر و شبیر اور عربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ ”حسنؓ اور حسینؓ جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں۔“ عرب کے زمانہ جاہلیت میں یہ دونوں نام نہیں تھے۔ (صواعق محرقہ : ص 118)
سیّدنا اِمام حسینؓ خواب کی تعبیر ہیں:
سیّدنا اِمام حسینؓ نبی کریمﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کی زوجہ حضرت لبابہ عامریہؓ جن کی کنیت اُمّ الفضل ہے‘ کے خواب کی تعبیر ہیں۔ یہ خواب صاحب ِمشکوٰة نے مناقب ِاہل بیت کے باب کی تیسری فصل کی تیسری حدیث ِمبارکہ میں حضرت اِمام بیہقیؒ کی کتاب ”دلائل النبوة“ کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔
حضرت اُمّ الفضلؓ بنت الحارث سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ وہ رسولِ کریمﷺ کی خدمت اَقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ ”میں نے رات ایک بہت مکروہ خواب دیکھا ہے“۔ آپﷺ نے فرمایا: وہ کیا ہے؟ عرض کیا‘ وہ بہت سخت خواب ہے فرمایا: بتاؤ تو سہی۔ عرض کیا‘ ”آپﷺ کے جسم اَطہر سے گوشت کا ایک ٹکڑا کٹا ہے اور میری گود میں رکھا گیا ہے۔ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا: تو نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔ انشاءاللہ تعالیٰ (حضرت) فاطمہ (الزہرہؓ) ایک لڑکے کو جنم دے گی اور وہ تیری گود میں آئے گا۔ چنانچہ (سیّدہ) فاطمہ (الزہرہؓ) نے (اِمام) حسینؓ کو جنم دیا (حضرت اُم فضلؓ فرماتی ہیں) پھر وہ میری گود میں آیا جیسا رسولِ کریم نے فرمایا تھا“۔ (مشکوٰة، کنزالعمال، فتح الباری)
سیدنا اِمام حسینؓ کے فضائل میں بہت احادیث وارد ہیں۔ پہلے اُن روایات کو پیش کیا جاتا ہے جو صرف آپؓ کے مناقب میں ہیں پھر وہ احادیث ِمبارکہ جن میں حضرت اِمام حسنؓ اور حضرت اِمام حسینؓ دونوں کے فضائل ہیں وہ پیش کی جائیں گی۔
(حضرت) حسینؓ مجھ سے ہیں:
حضرت یعلی بن مرةؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ حضور پرُنور سَیّد ِکائناتﷺ نے فرمایا: ”حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں “ یعنی حضرت اِمام حسینؓ کو نبی کریمﷺ سے اور نبی کریم کو اِمام حسینؓ سے اِنتہائی قرب ہے۔ گویا کہ دونوں ایک ہیں تو اِمام حسینؓ کا ذکر حضورﷺ کا ذکر ہے۔ اِمام حسینؓ سے دوستی حضورﷺ سے دوستی ہے۔ اِمام حسینؓ سے دشمنی حضورﷺ سے دشمنی ہے اور حضرت اِمام حسینؓ سے لڑائی کرنا نبی کریمﷺ سے لڑائی کرنا ہے۔
نئی کریمﷺ اِرشاد فرماتے ہیں: ”جس نے حسینؓ سے محبت کی اللہ نے اُس سے محبت کی“۔ (ترمذی، مشکوٰة، مسند احمد، مجمع الزوائد)
اِمام حسینؓ اسباط میں سے ایک سبط ہیں۔ ”اسباط سبط کی جمع ہے۔ سبط وہ درخت جس کی جڑ ایک ہو اور شاخیں بہت۔ یعنی جیسے حضرت یعقوبؑ کے بیٹے اَسباط کہلاتے تھے کہ اُن سے حضرت یعقوبؑ کی نسل بہت چلی ہے۔ ربِّ کریم فرماتا ہے ایسے ہی میرے حسین سے میری نسل چلے گی اور اِن کی اولاد سے مشرق و مغرب بھرے گی۔ دیکھ لو آج ساداتِ کرام مشرق و مغرب میں ہیں۔ اور یہ بھی دیکھ لیں حسنی سیّد تھوڑے ہیں‘ حسینی سیّد بہت زیادہ ہیں۔ یہ اُس فرمان عالیشان کا ظہور ہے۔
اِس لئے کہ حضرت اِمام حسینؓ سے محبت کرنا حضورﷺ سے محبت کرنا اور حضورﷺ سے محبت کرنا اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا ہے۔ (مرقاة شرح مشکوٰة ص 605)
سیّدنا اِمام حسینؓ کی محبت:
 حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریمﷺ نے فرمایا ”جسے پسند ہو کہ جنتی جوانوں کے سردارکو دیکھے تو وہ حسینؓ بن علیؓ کو دیکھے۔“ (نور الابصار : ص 114)
 حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا چھوٹا بچہ کہاں ہے؟ سیّدنا اِمام حسین دوڑتے ہوئے آئے اور حضورﷺ کی گود میں بیٹھ گئے اور اپنی اُنگلیاں داڑھی میں داخل کر دیں۔ حضور نبی کریم نے اُن کا منہ کھول کر بوسہ لیا پھر فرمایا: ”اے اللہ! میں اِس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اِس سے محبت فرما اور اُس سے بھی محبت فرما جو اِس سے محبت کرے۔ (نور الابصار : ص 114)
معلوم ہوا کہ حضورﷺ نے صرف دُنیا والوں ہی سے نہیں چاہا کہ وہ اِمام حسینؓ سے محبت کریں بلکہ رب تعالیٰ سے بھی عرض کیا کہ تُو بھی اِس سے محبت فرما اور یہ بھی عرض کیا کہ اِمام حسینؓ سے محبت کرنے والے سے بھی محبت فرما۔
 حضرت عبداللہ بن عمرؓ کعبہ شریف کے سایہ میں تشریف فرما تھے۔ اُنہوں نے حضرت اِمام حسینؓ کو تشریف لاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا آج یہ آسمان والوں کے نزدیک تمام زمین والوں سے زیادہ محبوب ہیں۔ (نور الابصار، اشرف المعد)
حضرت اِمام حسینؓ نے پیدل چل کر پچیس حج کئے‘ آپؓ بڑی فضیلت کے مالک تھے اور کثرت سے نماز‘ زکوٰة‘ حج‘ صدقہ اور دیگر امور ِخیر اَدا فرماتے تھے۔ (برکات الرسول)
حضرت سیّدنا عمرؓ فرماتے ہیں:
حضرت عمر فاروقؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ ایک روز میں نبی کریم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضورﷺ نے حضرت اِمام حسینؓ کو اپنی پشت پر بٹھا رکھا ہے اور ایک رسی اپنے منہ میں ڈال رکھی ہے (اور اِمام حسینؓ نے ایسے پکڑ رکھی ہے جیسے لگام) اُس کے دونوں سرے حضرت اِمام حسینؓ کو تھما رکھے ہیں اور وہ حضورﷺ کو چلا رہے ہیں اور نبی کریمﷺ اپنے گھٹنوں کے بل چل رہے ہیں۔ (حضرت فاروق اعظمؓ فرماتے ہیں) جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں نے کہا: (اے حسینؓ آپ کی سواری بہت ہی اچھی ہے تو آپﷺ نے یہ سُن کر فرمایا ”اے عمرؓ سوار بھی تو بہت اچھا ہے۔“(البدایة والنہایة، کنز العمال، مشکوٰة، تاریخ الخلفائ، کشف المحجوب)
حسنین کریمینؓ سے محبت:
حضرت اُسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ ایک رات کسی حاجت کی غرض سے میں نبی کریمﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو نبی کریمﷺ اِس طرح باہر تشریف لائے کہ آپﷺ نے (چادر کے نیچے) گود میں کچھ لیا ہوا تھا مجھے خبر نہ تھی کہ وہ کیا ہے۔ ”تو جب میری حاجت روائی ہو گئی“ تو میں نے عرض کیا آپﷺ کی گود میں (چادر کے نیچے) کیا ہے؟ تو آپﷺ نے اُسے کھولا۔ ”تو حضرت سیّدنا اِمام حسنؓ اور حضرت سیّدنا اِمام حسینؓ آپ کی رانوں پر تھے۔ فرمایا یہ میرے دونوں بیٹے میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے میرے اللہ میں اِن دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی اِن سے محبت فرما اور جو اِن سے محبت کرے اُس سے تو بھی محبت فرما۔“ (مشکوٰة، ترمذی، مصنف ابن ابی شیبہ، تاریخ ابن عساکر)
رسولِ کریم کا دشمن کون؟
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا ”جس نے حسنؓ و حسینؓ سے محبت کی اُس نے میرے ساتھ محبت کی جس نے اُن سے دُشمنی و بغض رکھا اُس نے میرے ساتھ دُشمنی و بغض رکھا“۔ (ابن ماجہ، ترمذی، مسند احمد)
پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے لئے جنت کے سردار ہونے کی ڈگری جاری ہوئی ہے۔ جس سے نہ کوئی اِنکار نہیں کر سکتا ہے۔
حضور نبی کریمﷺ نے واشگاف الفاظ میں خبر غیب سے اُمّت کو حضرات حسنین کریمینؓ کی جنت کے جوانوں کی سرداری کی نوید سے نوازا۔
جنت کے جوانوں کے سردار:
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا ”(حضرت اِمام) حسن اور (حضرت اِمام) حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں“ (مشکوٰة)
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ میں نے اپنی والدہ سے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیں کہ میں نبی کریمﷺ کی خدمتِ اَقدس میں جاؤں‘ آپﷺ کے ساتھ نمازِ مغرب ادا کروں اور آپﷺ سے سوال کروں کہ میری اور آپ کی بخشش کے لئے دُعا فرمائیں۔ (فرماتے ہیں) میں حضورﷺ کی بارگاہِ اَقدس میں حاضر ہوا پھر میں نے آپﷺ کے ساتھ نمازِ مغرب ادا کی یہاں تک کہ نمازِ عشاءبھی ادا کی۔ پھر آپﷺ حجرہ کی طرف روانہ ہوئے میں بھی آپﷺ کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ ”میری آواز کو سنا اور فرمایا یہ کون ہے؟ (پھر خود ہی فرمایا) کیا حذیفہ ہے؟ میں نے عرض کیا‘ جی (یا رسول اللہ ) پھر فرمایا تجھے کیا حاجت ہے؟ (پھر خود ہی فرمایا) اللہ تعالیٰ تیری بخشش بھی فرمائے اور تیری والدہ کی بھی بخشش فرمائے پھر فرمایا ”یہ فرشتہ ہے جو اِس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اُترا۔ اِس نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ مجھ پر سلام پڑھے اور مجھے بشارت دے کہ (حضرت سیّدہ) فاطمة (الزہرہ) جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسنؓ و حسینؓ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔“ (مشکوٰة ، ترمذی، مسند احمد، کنز العمال)
پھول:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ{ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا ”بے شک (حضرت) حسن اور (حضرت) حسین دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔“ (بخاری، فتح الباری، عمدة القاری، مشکوٰة) مسند احمد)
فرمانِ نبویﷺ کا مطلب ہے کہ اِمام حسنؓ اور اِمام حسینؓ جنت کے دو پھول ہیں جو مجھے عطا ہوئے اِن کے جسم سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔ اِس لئے رسولِ کریمﷺ اُنہیں سونگھا کرتے تھے۔ حضورﷺ حضرت علیؓ سے فرماتے ”اے دو پھولوں کے باپ تم پر سلام ہو۔“
حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول کریمﷺ سے عرض کیا گیا کہ اہل بیت میں سے آپﷺ کو سب سے زیادہ پیارا کون ہے؟ تو حضورﷺ نے فرمایا: حسنؓ اور حسینؓ ۔ رسولِ کریمﷺ خاتونِ جنت بی بی فاطمة الزہرہؓ سے فرماتے تھے: ”میرے پاس بچوں کو لاؤ پھر اُنہیں سونگھتے تھے اور اپنے ساتھ لپٹاتے تھے۔“ (مشکوٰة، ترمذی، درمنثور، فتح الباری)
خطبہ اور حسنین کریمینؓ{ :
حضرت بریدہؓ{ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول کریمﷺ ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اِمام حسنؓ{ اور اِمام حسینؓ جن پر دو سرخ قمیضیں تھیں وہ دونوں چلتے تھے اور گرتے تھے۔ ”رسولِ کریمﷺ منبر مبارک سے اُترے اور اُن دونوں کو اُٹھا لیا اور اپنے سامنے بٹھا لیا۔ پھر فرمایا سچ فرمایا اللہ (تعالیٰ) نے کہ تمہارے مال اور تمہاری اَولاد آزمائش ہے۔“ میں نے اِن دونوں بچوں کو دیکھا کہ چلتے اور گرتے ہیں تو میں صبر نہ کر سکا حتیٰ کہ میں نے اپنی بات بند کر دی اور اِن دونوں کو اُٹھا لیا۔ (مشکوٰة، ترمذی، ابو داؤد)
نوٹ:    خیال رہے کہ حسنین کریمینؓ کے لئے خطبہ قطع کرنا حضورﷺ کا اپنا خصوصی اِعجازہے۔ نہ تو ہم کو جائز ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لئے خطبہ جمعة المبارک ترک کریں اور نہ ہی حضرت علیؓ اور خاتون جنت سیّدہ فاطمہؓ کو جائز تھا کہ صاحبزادوں کے لئے خطبہ اور نماز چھوڑیں۔ آپﷺ نے حضرت امامہ بنت ابو العاصؓ یعنی اپنی نواسی کو کندھے پر لے کر نماز پڑھی اِس طرح کہ رُکوع و سجدہ کے وقت اُنہیں زمین پر اُتار دیتے۔
آپ کی شہادت کی شہرت :
سیّد الشہداءحضرت اِمام حسینؓ{ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپؓ کی شہادت کی بھی شہرت عام ہو گئی۔ حضرت علیؓ{‘ سیّدہ فاطمة الزہراہؓ{ اور دیگر صحابہؓ{ و اہلبیتؓ{ کے جاں نثار سبھی لوگ آپؓ کے زمانہ شیر خوار گی ہی میں جان گئے تھے کہ یہ فرزندِ ارجمند ظلم و ستم کرنے والوں کے ہاتھوں شہید کیا جائے گا جیسا کہ اُن اَحادیثِ کریمہ سے ثابت ہے جو آپؓ کی شہادت کے بارے میں وارد ہیں۔
ارضِ طَف
اُمُّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ{ سے روایت ہے‘ فرماتی ہیں‘ نبی کریم نے فرمایا: ”مجھے (حضرت) جبرائیلؑ نے خبر دی کہ میرا بیٹا حسین میرے بعد ”ارضِ طف“ میں شہید کیا جائے گا۔ (حضرت) جبرائیلؑ نے مجھے اُس مقام کی یہ مٹی لا کر دی ہے اور بتایا ہے کہ یہ زمین (اِمام حسینؓ کی) شہادت گاہ بنے گی۔“ (طبرانی، کنزالعمال)
ابن السکن اور محی السنة بغوی نے کتاب ”الصحابہ“ اور ابو نعیم نے طریق سخیم کے مطابق نقل کیا ہے کہ حضرت انس بن حارثؓ فرماتے ہیں ”میں نے رسول کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرا یہ بیٹا (حسینؓ) جس جگہ شہید کیا جائے گا اُس کا نام کربلا ہے۔ لہٰذا جو شخص تم میں سے اُس وقت وہاں حاضر ہو وہ ضرور اُن کی مدد کرے۔“ (البدایة والنہایة، کنزالعمال، تہذیب تاریخ دمشق لا بن عساکر)
 حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتہ نے حضورﷺ کی خدمت میں حاضری دینے کےلئے خداوندِ قدوس سے اِجازت طلب کی‘ جب وہ فرشتہ اجازت ملنے پر بارگاہِ نبوتﷺ میں حاضر ہوا تو اُس وقت حضرت حسینؓ آئے اور حضورﷺ کی گود میں بیٹھ گئے تو آپﷺ اُن کو چومنے اور پیار کرنے لگے۔ فرشتہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ کیا آپﷺ حسینؓ سے پیار کرتے ہیں؟ حضورﷺ نے فرمایا: ہاں! اُس نے کہا ”آپﷺ کی اُمّت حسینؓ کو قتل کر دے گی“ اگر آپﷺ چاہیں تو میں اُن کی قتل گاہ (کی مٹی) آپﷺ کو دکھا دوں۔ پھر وہ فرشتہ سرخ مٹی لایا جسے اُمّ المومنین اُمّ سلمہؓ نے اپنے کپڑے میں لے لیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: اے اُم سلمیٰؓ! جب یہ مٹی خون بن جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسینؓ شہید کر دیا گیا ہے۔ اُمّ المومنین سیّدہ اُمّ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے اُس مٹی کو شیشی میں بند کر لیا جو (اِمام حسینؓ)کی شہادت کے دن خون بن گئی۔ (صواعق محرمہ)
ابن سعدؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ جنگ صفین کے موقع پر کربلا سے گزر رہے تھے کہ ٹھہر گئے اور اُس زمین کا نام دریافت فرمایا۔ لوگوں نے کہا اِس زمین کا نام کربلا ہے۔ کربلا کا نام سنتے ہی بہت روئے۔ پھر فرمایا کہ میں حضورﷺ کی خدمت میں ایک روز حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپﷺ رو رہے ہیں‘ میں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہﷺ آپﷺ کیوں رو رہے ہیں؟ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: ابھی میرے پاس حضرت جبریلؑ آئے تھے‘ انہوں نے مجھے خبر دی ”میرا بیٹا (حضرت) حسینؓ دریائے فرات کے کنارے اُس جگہ پر شہید کیا جائے گا جس کو کربلا کہتے ہیں۔“ (صواعق محرمہ)
 سیّدہ فاطمة الزہراہؓ فرماتی ہیں کہ میں حسنؓ اور حسینؓ کو لے کر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا حضورﷺ یہ آپﷺ کے دونوں نواسے ہیں اِنہیں کچھ عطا فرمائیے تو نبی کریمﷺ نے فرمایا ”حسنؓ کے لئے ہیبت و سیادت ہے اور حسینؓ کےلئے میری جرأت و سخاوت ہے۔“ (اشرف الموید)
اِن اَحادیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ حضورﷺ کو حضرت اِمام حسینؓ کے شہید ہونے کی بار بار اطلاع دی گئی اور حضورﷺ نے بھی اِس کا بارہا ذکر فرمایا اور یہ شہادت امام حسینؓ کے عہدِ طفلی ہی میں خوب مشہور ہو چکی تھی اور سب کو معلوم ہو گیا تھا کہ آپؓ کے شہید ہونے کی جگہ کربلا ہے بلکہ وہ اِس کے چپہ چپہ کو پہنچانتے تھے اور اُنہیں خوب معلوم تھا کہ شہداۓکربلا کے اُونٹ کہاں باندھے جائیں گے، اُن کا سامان کہاں رکھا جائے گا اور اُن کے خون کہاں بہائے جائیں گے؟
مختلف اَحادیث میں وحی جلی کے ذریعے اِس بات کے بارے میں پیشگی طور پر مطلع کر دیا گیا کہ اِمام حسینؓ کو شہید کر دیا جائے گا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اِتنے واضح اَلفاظ میں اِس بات کی تشہیر کر دی گئی تو حضورﷺ نے حضرت علیؓ اور بی بی فاطمةؓ نے دُعا کیوں نہ فرمائی۔ جب کہ حدیث شریف میں ہے ”تقدیر نہیں ٹلتی مگر دُعا سے“ (مسند احمد، مصنف ابن ابی شبیہ، درمنثور، کنز العمال)
نبی کریمﷺ اگر چاہتے تو دُعا فرما کر تقدیر میں تبدیلی کروا سکتے تھے مگر آپﷺ مشیتِ ایزدی پر راضی تھے اور راضی برضا تھے۔
جبکہ اللہ تعالیٰ آپ کو فرماتا ہے: وَ لَسَوفَ یُعطِیکَ رَبُّکَ فَتَرضٰی طجن کا حکم بحر و بر میں نافذ ہے‘جنہیں شجر و حجر سلام کرتے ہیں ‘چاند جن کے اِشاروں پر چلا کرتا ہے‘ جن کے حکم سے ڈوبتا ہوا سورج پلٹ آتا ہے بلکہ بحکم الٰہی کونین کے ذَرہ ذَرہ پر جن کی حکومت ہے، وہ نبی کریمﷺ پیارے نواسے کے شہید ہونے کی خبر پا کر آنکھوں سے آنسو تو بہاتے ہیں مگر نواسے کو بچانے کے لئے بارگاہ ِالٰہی میں دُعا نہیں فرماتے اور نہ حضرت علیؓ اور سیّدہ فاطمہؓ عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہﷺ اِمام حسینؓ کی خبر شہادت نے تو دل و جگر پارہ پارہ کر دیا آپ دُعا فرمائیں کہ خدائے عزوجل اِمام حسینؓ کو اِس حادثہ سے محفوظ رکھے۔ اہلبیت‘ ازواجِ مطہرات اور صحابہؓ سب لوگ اِمام حسینؓ کے شہید ہونے کی خبر سنتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے نبیﷺ کی بارگاہِ اَقدس میں کوئی دُعا کی درخواست پیش نہیں کرتا جبکہ آپﷺ کی دُعا کا حال یہ ہے کہ:
اجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا
دلہن بن کے نکلی دُعائے محمد
اجابت نے جھک کر گلے سے لگایا
پڑھی ناز سے جب دُعائے محمد
حضورﷺ نے اِمام حسینؓ کو بچانے کے لئے دُعا نہیں فرمائی اور نہ حضورﷺ سے کسی نے اِس کے بارے میں دُعا کرنے کی درخواست پیش کی، صرف اِس لئے کہ اِمام حسینؓ کا اِمتحان ہو ‘ اُن پر تکالیف و مصائب کے پہاڑ ٹوٹیں اور وہ اِمتحان میں کامیاب ہو کر اللہ کے پیارے ہوں کہ اب نبی کوئی ہو نہیں سکتا تو نواسۂ رسولﷺ کا درجہ اُسی طرح بلند سے بلند تر ہو جائے اور رَضائے الٰہی حاصل ہونے کے ساتھ دنیا و آخرت میں اُن کی عظمت ورفعت کا بول بالا بھی ہو جائے۔
بعض لوگ یزید پلید کی حمایت میں اِمام حسینؓ کی مخالفت کرتے ہوئے زبانِ طعن دراز کرتے ہیں کہ اِمام حسینؓ نے حکومتِ وقت کی اطاعت نہ کر کے ”فساد“ پیدا کیا اور ”بغاوت“ کی۔
ایسی باتیں کرنے والے اِس حقیقت سے نا آشنا ہیں کہ اِمام حسینؓ تو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ اُن کی طرف ”فساد“ اور ”بغاوت“ کی نسبت کرنا ہی حرام ہے۔
اِمام حسینؓ کو ”فسادی“ کہنا اللہ تعالیٰ اور حضورﷺ کے علم کی توہین اور قرآنِ مجید کی تکذیب کرنا ہے۔
حضورﷺ نے جب بارگاہِ خداوندی میں گذارش کی تھی، اے میرے اللہ میں اِن دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی اِن سے محبت فرما۔ تو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ اُن کو اپنی محبت سے نوازا بلکہ جنت کے جوانوں کا سردار بھی بنا دیا۔
میدانِ کربلا میں یزیدی فوجوں کے مقابلے میں اِمام حسینؓ کا ڈٹ جانا سچائی‘ تقویٰ اور حقانیت کی دلیل ہے۔
کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے بیٹے کو کربلا میں شہید کیا جائے گا جو کوئی اُس موقع پر موجود ہو وہ میرے بیٹے حضرت اِمام حسینؓ کی مدد کرے۔ آپﷺ کا یہ فرمان قرآنِ مجید کی اُس آیت کی روشنی میں دیکھا جائے جس میں فرمانِ خداوندی ہے کہ ”اور نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو“ (المائدة : 2)
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت سیّدنا اِمام حسینؓ نے کرسی (اقتدار )کی خاطر اپنی جان قربان کر دی۔ یہ بات اگر پاکستانی معاشرے کا کوئی فرد کہے تو حیرت ہوتی ہے کیونکہ کرسی کے لئے صرف حاکم وقت کی ہاں میں ہاں ملانے کی ضرورت ہوتی ہے یہ کھیل اِتنا عام فہم ہے جس میں اِمام حسینؓ جیسی پاکیزہ و عظیم شخصیت کو ملوث کرنا انتہائی ظلم اور ناانصافی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اور رسولِ کریمﷺ کو اذیت پہنچانے والی بات ہے کہ جس ہستی کو اللہ تعالیٰ جنت کے جوانوں کا سردار نامزد کر رہا ہو اور جس سے نبیﷺ محبت فرماتے ہوں وہ کرسی (اقتدار)کے لالچ میں سارے کا سارا کنبہ کیسے شہیدکروا سکتا ہے؟
اِمام حسینؓ کی زندگی کے اِس لافانی پہلو کو بایں الفاظ ”کشف المحجوب“ میں بیان فرمایا گیا ہے۔
”حضرت سیّدنا اِمام حسینؓ جو محققان اولیاءکرام سے ہیں اور قبلہ اہل صفا ہیں جب تک حق ظاہر رہا حق کی متابعت کرتے رہے اور جب حق مفقودہوا تو تلوار اُٹھائی یہاں تک کہ اپنی جانِ عزیز کو بارگاہِ الٰہی میں فدا کر دیا اور جب تک جان فدا نہ فرما دی آپؓ نے آرام نہ فرمایا۔“
اِس واقعہ فاجعہ سے اللہ تعالیٰ کے محبوب کو اِنتہائی تکلیف ہوئی اور مشیّتِ ایزدی بھی یہ اندوہناک منظر ملاحظہ کرتی رہی کہ کس طرح نبی آخر الزماںﷺ کے پیارے نواسے کو کس بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔
صحابہ کرامؓ نے نبی کریم کو اِس عظیم سانحہ کے بعد خواب میں پریشان حالت میں دیکھا جس کا ذکر احادیثِ مبارکہ میں ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک دن میں نے دوپہر کے وقت خواب میں رسولِ کریمﷺ کو دیکھا کہ بال مبارک بکھرے ہوئے ہیں اور گرد و غبار بھی پڑا ہوا ہے اور آپﷺ کے ہاتھ میں ایک شیشی ہے‘ میں نے عرض کی کہ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہو جائیں ‘یہ کیا ہے؟     فرمایا: یہ (اِمام) حسینؓ اور اُن کے ساتھیوں کا خون ہے آج میں اِس خون کو اُٹھاتا رہا (حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں) میں وہ وقت خیال میں رکھنے لگا میں نے یہ وقت قتل کا پایا۔“ (مشکوٰة، مسند احمد، دلائل النبوة، البدیة والنہایة)
اُمّ المومنین سیّدہ سلمیٰ ؓ سے روایت ہے ‘فرماتی ہیں کہ میں اُم سلمہؓ کے پاس گئی وہ رو رہی تھیں۔ میں نے پوچھا کون سی چیز آپؓ کو رولا رہی ہے؟ فرمانے لگیں ”میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا یعنی خواب میں کہ آپﷺ کے سرِ انور اور ریش مبارک پر مٹی ہے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ آپﷺ کا یہ کیا حال ہے فرمایا: قتل گاہِ حسین میں حاضر تھا۔“ (ترمذی، مشکوٰة‘ مستدرک حاکم، مسند احمد)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک شخص (جس کا تعلق کوفہ، عراق سے تھا) نے پوچھا حضرت شعبہ فرماتے ہیں میں سمجھتا ہوں یہ پوچھا کہ اگر اِحرام والا مکھی کو مار ڈالے (تو اِس پر کچھ فدیہ ہے) حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا عراق والے مکھی کے مار ڈالنے کا پوچھتے ہیں:
”اور رسولِ کریمﷺ کے نواسے حسینؓ کو اُنہوں نے (بے دریغ) شہید کر ڈالا (اللہ کا کچھ ڈر نہ کیا) حالانکہ نبی کریمﷺ نے اِن دونوں نواسوں کی نسبت فرمایا یہ دونوں دُنیا میں میرے دو پھول ہیں۔“(بخاری، تیسیر الباری، تفہیم الباری)
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم نے فرمایا علیؓ، فاطمہؓ، حسنؓ، حسینؓ سے ‘ جو اِن سے لڑے‘ میں اُن سے لڑنے والا ہوں اور جو اِن سے صلح کرے میں اُس سے صلح کرنے والا ہوں۔ “ (مستدرک حاکم، مسند احمد، طبرانی کبیر، درمنثور)
کاش وہ لوگ جنہوں نے اِمام حسینؓ کو بُلا کر خود ہی شہید کر دیا‘ اُنہوں نے اور قاتلان حسینؓ کی حمایت کرنے والوں نے سرکارِ کائناتﷺ کی حدیث پاک پڑھی ہوتی ۔
حضرت ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے کعبة اللہ کا بابِ مقدس پکڑے ہوئے فرمایا کہ میں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ”خبر دار آگاہ رہو کہ تم میں میرے اہل بیت کی مثال کشتیٔ نوحؑ کی طرح ہے جو اِس میں سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو اِس سے پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا۔“ (مستدرک حاکم، مشکوٰة، کنز العمال)
شہادت حضرت سیّدنا اِمام حسین :
حضرت اِمام حسینؓ کی شہادت کا ذکر بذریعہ وحی حضرت جبرائیلؑ اور دیگر فرشتوں کے ذریعے نازل ہوا۔ پھر مقام شہادت کا تعین اور نشاندہی فرمائی گئی ، اِس جگہ کا نام بتا دیا گیا، پھر شہادت کا وقت زمانہ اور تاریخ بھی بتا دی گئی کہ وہ 60ھ کے آخر اور 61ھ کے شروع میں واقع ہو گی۔
شہادت اِمام حسینؓ کے بعد:
اِمام حسینؓ کو کربلا کے مقام پر شہید کیا گیا، آپؓ کی شہادت کا واقعہ بہت طویل اور دل سوز ہے جس کو لکھنے اور سننے کی دل میں طاقت نہیں ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اَلَیہِ رَاجِعُونَ حضرت سیّدنا اِمام حسینؓ کے ساتھ 16 اہل بیت (گھر کے لوگ) شہید ہوئے جبکہ کل 72 افراد شہید ہوئے۔ آپؓ کی شہادت کے واقعہ کے بعد سات دن تک اندھیرا چھایا رہا۔ دیواروں پر دھوپ کا رنگ زرد پڑ گیا تھا اور بہت سے ستارے بھی ٹوٹے، آپؓ کی شہادت 10 محرم 60 ہجری کو واقع ہوئی۔ آپؓ کی شہادت کے دن سورج گہن میں ا ٓگیا تھا، مسلسل چھ ماہ تک آسمان کے کنارے سرخ رہے، بعد میں رَفتہ رَفتہ وہ سرخی جاتی رہی۔ البتہ اُفق کی سرخی جس کو شفق کہا جاتا ہے آج تک موجود ہے یہ سرخی شہادت حسینؓ سے پہلے موجود نہیں تھی۔
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شہادتِ حسینؓ کے دن بیت المقدس میں جو پتھر بھی اُٹھایا جاتا تھا‘ اُس کے نیچے تازہ خون نکلتا تھا۔ عراقی فوج نے جب اپنے لئے اُونٹ ذبح کیا تو اُس کا گوشت آگ کی طرح سُرخ بن گیا اور جب اُس کو پکایا تو وہ کڑوا ہوگیا۔ ایک شخص نے اِمام حسینؓ کو سب و شتم کیا تو بحکم الٰہی آسمان سے ستارے ٹوٹے اور وہ اندھا ہو گیا۔ (تاریخ الخلفاء(عربی)
قصر ِامارتِ کوفہ:
ثعالبی، عبدالملک بن عمر اللیثی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے کوفہ کے دارالامارت میں دیکھا کہ اِمام حسینؓ کا سر عبیداﷲ بن زیاد کے سامنے ایک ڈھال پر رکھا ہوا تھا۔ پھر اِسی قصرِ امارت میں کچھ دنوں کے بعد عبیداﷲ بن زیاد کا سر مختاربن عبید کے سامنے رکھا ہوا دیکھا پھر کچھ عرصہ بعد مختار بن عبید کا سر مصعب بن زبیر کے سامنے اِسی قصر میں رکھا ہوا دیکھا اور کچھ مدت کے بعد مصعب بن زبیر کا کٹا ہوا سر عبدالملک کے سامنے رکھا ہوا پایا۔ جب میں نے یہ قصہ عبدالملک کو سُنایا تو اُنہوں نے اِس دارالامارت کو نحس سمجھ کر چھوڑ دیا۔ (تاریخ الخلفائ)
حضرت اِمام حسینؓ کی شہادت پر جنات بھی روئے :
ابو نعیم نے دلائل میں اُم سلمہؓ کی زبانی لکھا ہے کہ میں نے شہادت حضرت اِمام حسینؓ پر جنات کو اشکباری کرتے دیکھا۔ ثعلب نے امالی میں ابی کلبی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ میں نے کربلا میں جا کر ایک معزز عرب سے دریافت کیا کہ کیا تم نے جنات کو گریہ و زاری کرتے سنا ہے؟ اُس نے کہا کہ تم جس سے چاہو پوچھ لو اُن کی گریہ و زاری ہر ایک نے سُنی ہے۔ میں نے کہا جو کچھ تم نے سُنا ہے وہ مجھے بھی بتاؤ۔ اُس شخص نے جواب دیا کہ میں نے جنات کی زبانی یہ اَشعار سنے ہیں۔ (تاریخ الخلفائ)
جس کی پیشانی پر رسولﷲ نے دستِ مبارک پھیرا ہے
اُن کے رخساروں پر بہت چمک تھی
اُن کے والدین قریش کے اعلیٰ خاندان سے تھے
اور اُن کے جد تمام اجداد سے بہتر تھے
جب حضرت سیّدنا اِمام حسینؓ اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ شہید ہو چکے تو ابن زیاد نے اُن تمام شہدا کے سروں کو یزید کے پاس دارالسلطنت میں بھیج دیا۔ یزید اِن سرہائے بریدہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔
یزید کو ”امیر المومنین“ کہنے پر دُرّوں کی سزا:
نوفل بن ابو الفرات کہتے ہیں کہ میں ایک روز حضرت عمر بن عبدالعزیز (اموی) کے پاس بیٹھا ہوا تھا‘ یزید کا کچھ ذکر آ گیا‘ ایک شخص نے یزید کا ”امیر المومنین“ یزید بن معاویہ کہہ کر نام لیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اُس شخص سے کہا کہ تو اُسے ”امیر المومنین“ کہتا ہے۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ یزید کو ”امیر المومنین“ کہنے پر اِس شخص کو 20 کوڑے لگائے جائیں۔ (تاریخ الخلفائ)

واقعہ:
 حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ فرماتے ہیں‘ مَیں نے ایک حکایت میں دیکھا ہے‘ ایک دن کوئی شخص آپ کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا‘ اے رسول اللہ کے بیٹے میں ایک درویش آدمی ہوں ‘عیال دار ہوں‘ مجھے آج اپنی طرف سے کھانے پینے کے لئے کچھ عنایت فرمائیے۔ یہ سُن کر حضرت اِمام حسینؓ نے فرمایا‘ بیٹھ جاؤ ابھی ہمارا روزینہ راستہ آ رہا ہے۔ کچھ دیر کے بعد لوگ حضرت امیر معاویہؓ کی طرف سے ہزار ہزار دینار کی پانچ تھیلیاں لائے۔ اُن لوگوں نے کہا حضرت امیر معاویہؓ آپ سے معافی چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اِس رقم کو حاجت مندوں کے مصرف میں صرف فرمائیں۔ حضرت اِمام حسینؓ نے وہ پانچوں تھیلیاں اُس درویش کو دے دیں اور اُس سے معافی مانگی کہ تجھے یہاں کافی دیر تک بیٹھنا پڑا اور یہ بہت ہی بے قدر عطیہ ہے ہمیں معذور سمجھو۔
عمدہ اور پر حکمت اِرشاد:
کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخشؒ لکھتے ہیں:
”طریقت میں آپ کے بہت سے لطیف اور بے شمار رموز ہیں اور بہت سے عمدہ اور پُرحکمت اِرشادات ہیں۔ آپ ہی کا ایک اِرشاد ہے۔ (یعنی تجھ پر سب سے زیادہ شفقت کرنے والا تیرا بھائی تیرا دین ہے)۔ اِس لئے کہ انسان کی نجات اُخروی دین کی متابعت میں ہے اور اُس کی ہلاکت دین کی مخالفت میں۔ پس عقل مند وہ ہے کہ اپنے مہربانوں اور مشفق بھائیوں کا فرمانبردار رہے اور اُن کی شفقت کو اپنے لئے مخصوص کرے اور اُن کی خلاف ورزی نہ کرے اور بھائی وہ ہے جو نصیحت کرے اور شفقت کا دروازہ اُن پر بند نہ کرے۔
 اے اِمام سیّدنا حسینؓ آپ کی عظمت کو لاکھوں سلام


 علامہ منیر احمد یوسفی

No comments:

Post a Comment