Wednesday

Hazrat Imam-e-Azam Abu Hanifa R.A

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ


ڈاکٹر اشرف آصف جلالی
امام الائمہ حضرت اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمة اللہ صلابت فکر کے امیں اور اصابت رائے کے رخشندہ نگیں تھے۔ انہوں نے قرآن و حدیث سے لاکھوں مسائل کا استنباط کیا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسے اصول وضع کئے جو ہر عہد جدید کے مسائل کے عقدہ کشا اور ہر صبح نو کے ایوان کا
نور ہیں۔
دوسری صدی ہجری کے اوساط تک تدوین فقہ کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی۔
Story of Hazrat Imam e Azam Abu Hanifa in Urdu, Shrine Of Imam e Azam Abu Hanifa R.A, Fiqa Hanfi
آپ نے صحابہ کرامؓ اور تابعین کے ایک دور کے گزر جانے کے بعد امت مسلمہ پر احسان کرتے ہوئے تدوین فقہ کا ذمہ اٹھایا اور 120ہجری میں یہ کام شروع کر دیا۔ اس جامعیت کے لحاظ سے تدوین کرنے پر فقہ کے بانی کہلائے۔ چنانچہ امام موفق بن احمد مکی متوفی 484ھ کہتے ہیں۔
حضرت امام ابو حنیفہ وہ پہلے مجتہد ہیں جنہوں نے اس شریعت کے علم کو مدون کیا۔ آپ سے پہلے کسی نے یہ کام نہیں کیا تھا کیونکہ صحابہ کرامؓ اور تابعین نے علم شریعت کی بتویب نہیں کی تھی اور نہ اسے کتب میں مرتب کیا تھا۔ وہ اپنی قوت فہم پر اعتماد کرتے تھے ان کے دل ہی ان کے علوم کے لئے صندوق تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہ ان کے بعد جلوہ گر ہوئے آپ نے علم کو منتشر دیکھا تو آپ کو علم شریعت کے ضائع ہونے کا خوف دامن گیر ہوا۔
لہٰذا امام اعظم ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے امت کے سامنے اسلامی فقہ کو ایک مستقل فن کی حیثیت سے پیش کیا اور آپ نے تقریباً پانچ لاکھ فقہی مسائل جمع کئے۔ امام اعظم ابو حنیفہ نے جب فقہ حنفی کی تدوین فرما دی تو پھر امام مالک نے مدینہ منورہ فقہ مالکی کی تدوین کی اور اپنی حدیث کی کتاب موطا کو فقہی ترتیب پر مرتب کیا ان کے بعد امام محمد بن ادریس شافعی نے فقہ کی تدوین کی۔ انہوں نے فقہائے مدینہ سے بھی استفادہ کیا اور امام اعظم ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا۔ بعد ازاں بغداد شریف میں امام احمد بن حنبل نے فقہ حنبلی کی تدوین کی۔
حضرت امام ابو حنیفہ کی اس میدان میں سبقت اور آپ کے احسان عظیم کا ذکر کرتے ہوئے حضرت امام شافعی نے آپ کو یوں خراج تحسین پیش کیا۔ ”تمام لوگ فقہ میں حضرت امام ابو حنیفہ کے دست نگر ہیں“۔
حضرت امام ابو حنیفہ کا علمی پایا جس قدر بلند تھا وہ امت مسلمہ کے لئے ایک قابل فخر امر ہے۔ کہکشاں کی بلندیوں سے علم کی خوشہ چینی کرنے کے جن کے تذکرے چار دانگ عالم میں تھے وہ واقعہ ہی ہمالہ علم کی چوٹیوں پر فائض تھے۔ مگر حضرت امام ابو حنیفہ نے اس تمام تر علم و دانش کے باوجود اپنی ذات پر اور اپنے علمی ذخیرہ پر ہی اعتماد نہیں کیا بلکہ فقہ کی تدوین کے لئے آپ نے علمائے عصر کی ایک مجلس شوریٰ قائم کی اور پھر ان میں سے مجتہدین کا ایک بورڈ بنا دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ فقہ کی تدوین کے مسئلے میں کس قدر محتاط تھے اور آپ نے کتنی ذمہ داری سے امت کے اس حساس فریضہ کو سرانجام دیا آپ نے اپنی مجلس شوریٰ کے علماءمجتہدین میں بھی یہ احساس شدت سے اجاگر کیا۔ آپ نے ان سے فرمایا ”میں تمہارے لئے فقہ تیار کرنے والا ہوں میری مدد کرو کیونکہ لوگوں نے مجھے آگ کے اوپر پل بنا دیا ہے“۔ آپ کے حزم و احتیاط اور تحقیق و استنباط کے مراحل کو ذکر کرتے ہوئے امام ابو جعفر الشیز اماری حضرت شفیق بلخی سے روایت کرتے ہیں۔
ترجمہ: حضرت امام ابو حنیفہ تمام لوگوں میں سے اعلیٰ درجے کے متقی پرہیزگار، عابد شب، زندہ دار اور شرف و عزت کے تاجدار تھے۔ آپ دینی امور میں حد درجے کے محتاط تھے۔ آپ ان لوگوں کے سرخیل تھے۔ گو جو دین الٰہی میں اپنی رائے کو دخل نہیں دیتے۔ آپ نے فقہ میں ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں کیا جس پر آپ نے ”اجتہاد بورڈ“ کا اجلاس منعقد نہ کیا ہو بلکہ ہر مسئلے پر اپنے تمام اصحاب کو جمع کرتے اور دلائل کا تبادلہ ہوتا جب آپ کے تمام اصحاب اس بات پر متفق ہو جائے کہ یہ مسئلہ شریعت کے موافق ہے تو آپ حضرت امام یوسف یا کسی اور صاحب کو فرماتے کہ اس مستنبط مسئلہ کو فلاں باب میں لکھ دیجیے۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نے تدوینی امور کو زیادہ سے زیادہ قابل اعتماد اور شاندار بنانے کے لئے ایک بہت بڑی شوریٰ بنائی خصوصاً اس دور کے اعداد و شمار کے لحاظ سے یہ واقعی بہت بڑی شوریٰ تھی آج کی کوئی پارلیمنٹ تقویٰ و تقدس اور فہم و فراست کے لحاظ سے تو ویسے ہی نہیں ممبران کے لحاظ سے بھی اس کے ہم پلہ نہیں ہے۔ آپ کی شوریٰ کے ممبران جن کی علمی گرفت بڑی مضبوط تھی ان کی تعداد ایک ہزار (1000)اور اجتہاد بورڈ کے مجتہد اراکین کی تعداد چالیس تھی ملاحظہ ہو مسند خوارزمی میں ہے۔
”حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے ساتھ ان کے اصحاب میں سے ایک ہزار علماءفضلاءجمع ہوئے جن میں چالیس علمی لحاظ سے اس قدر عظیم تھے کہ وہ مقام اجتہاد تک پہنچے ہوئے تھے“۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور آپ کے اصحاب نے تمام فقہ کی تدوین میں ایک اصول کی شدت سے پابندی کی ہے۔ کسی مسئلہ کے بارے میں حکم بیان فرماتے ہوئے آپ سب سے پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع فرماتے اگر قرآن مجید سے اس کی دلیل نہ پاتے تو پھر حدیث شریف کا رخ کرتے اگر یہاں سے بھی دلیل نہ پاتے تو پھر صحابہ کرام کے فیصلوں سے دلیل تلاش کرتے اگر ان سے بھی دلیل نہ پاتے تو پھر قیاس کے اصولوں کے مطابق مطلوبہ مسئلہ کی جس مسئلہ کے ساتھ مشابہت کے حامل پر قیاس کر کے وہ حکم مطلوبہ مسئلہ میں صادر فرما دیتے۔ مگر کہیں قیاس کو قرآن و حدیث پر مقدم نہیں کرتے۔


ایک مقام پر آپ نے اپنے منہج اجتہاد کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ ”مسائل کے حلم کے بارے میں اولاً کتاب اللہ میں سے حکم تلاش کرتا ہوں پھر سنت رسول سے پھر اقوال صحابہ سے اگر میں کتاب اللہ سے حکم مسئلہ پا لوں تو پھر سنت رسول کی طرف نہیں جاتا اگر سنت رسول سے حکم مسئلہ مل جائے تو پھر اقوال صحابہؓ کی طرف رجوع نہیں کرتا اگر سنت سے نہ ملے تو اقوال صحابہ میں سے محبوب قول اختیار کرتا ہوں صحابہ کرامؓ کے اقوال سے بھی حکم 
مسئلہ معلوم نہ ہو تو پھر میں اجتہاد کرتا ہوں“۔

No comments:

Post a Comment