سانحۂ سقوطِ خلافت… کچھ یادیں اور باتیں
رجب کا مہینہ ہر سال آتا اور گزرجاتا ہے ۔ ہم میں سے بے شمار ایسے ہیں جنھیں خبر ہی
نہیں ہے کہ آج سے قریباً اکیانوے سال قبل امت مسلمہ پرسقوطِ خلافت کی صورت میں ایسی افتاد آن پڑی تھی ، جس کا خمیازہ آج تک مسلمان بھگت رہے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ مالی مشکلات سے دوچار
تھی، یہودیوں کو پتہ چلا تو انھوں نے زرکثیر بطور چندہ اکٹھا کرکے سلطان کو پیش کیا اور دست بستہ عرض کیاکہ؛حضور! ہمیں فلسطین میں بسنے کی اجازت دے دی جائے۔خلیفہ نے یہ سنا تو غصے اور غیرتِ ایمانی سے ؎بیتاب ہوگئے اور یہودی پیشکش کے جواب میں یہ مشہور الفاظ کہے تھے : ’’میں اس بات کو پسند کروں گا کہ کوئی میرے جسم میں خنجر گھونپ دے بجائے یہ کہ فلسطین کو اسلامی ریاست سے کاٹ دیا جائے ۔ ‘‘پھر خلیفۂ وقت نے تاریخی الفاظ کہے ـ :’’یہودی اپنے لاکھوں ڈالراپنے پاس رکھیں، اگرکسی دن اسلامی خلافت تباہ ہوگئی توپھر خواہ وہ فلسطین کو مفت لے جائیں‘‘۔
آپ کویہ جان کربے ساختہ اپنے تابناک ماضی پر فخر محسوس ہوگا کہ امریکہ اور یورپ اپنے تجارتی بیڑے گزارنے کے لے مسلم حکومت کو باقاعدہ ٹیکس دیتے تھے اور پورا مغرب اخلاقی ، علمی،تربیتی اور فکری لحاظ سے وسیع وعریض مسلم ریاست سے مرعوب تھا۔ لیکن پھر ایک دن ایسا بھی آیاکہ دیکھتے دیکھتے 1924ء میں اپنے ایک زرخرید ایجنٹ مصطفی کمال پاشا کے ذریعے خلافت کا خاتمہ کردیا گیا اور عالمِ اسلام حصے بخروں میں تقسیم ہو گیا۔ یورپ نے اپنی، زبان، تہذیب ،کلچر، معتقدات، افکار اور رسومات کو ساری دنیا پر جبراً نافذ کرنے کی کوشش کی ،حتیٰ کہ انھوں نے اس سلسلے میں عام انسانی اور اخلاقی قدروں کو بھی پامال کرنے سے گریز نہیں کیا۔ افریقہ اور ایشیاء کے کمزور ملکوں کے باشندوں کو غلام بنا کرجانوروں کی طرح بیچنے کی تجارت کو فروغ دیا جاتا رہا۔
رجب کا مہینہ ہر سال آتا اور گزرجاتا ہے ۔ ہم میں سے بے شمار ایسے ہیں جنھیں خبر ہی
نہیں ہے کہ آج سے قریباً اکیانوے سال قبل امت مسلمہ پرسقوطِ خلافت کی صورت میں ایسی افتاد آن پڑی تھی ، جس کا خمیازہ آج تک مسلمان بھگت رہے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ مالی مشکلات سے دوچار
تھی، یہودیوں کو پتہ چلا تو انھوں نے زرکثیر بطور چندہ اکٹھا کرکے سلطان کو پیش کیا اور دست بستہ عرض کیاکہ؛حضور! ہمیں فلسطین میں بسنے کی اجازت دے دی جائے۔خلیفہ نے یہ سنا تو غصے اور غیرتِ ایمانی سے ؎بیتاب ہوگئے اور یہودی پیشکش کے جواب میں یہ مشہور الفاظ کہے تھے : ’’میں اس بات کو پسند کروں گا کہ کوئی میرے جسم میں خنجر گھونپ دے بجائے یہ کہ فلسطین کو اسلامی ریاست سے کاٹ دیا جائے ۔ ‘‘پھر خلیفۂ وقت نے تاریخی الفاظ کہے ـ :’’یہودی اپنے لاکھوں ڈالراپنے پاس رکھیں، اگرکسی دن اسلامی خلافت تباہ ہوگئی توپھر خواہ وہ فلسطین کو مفت لے جائیں‘‘۔
آپ کویہ جان کربے ساختہ اپنے تابناک ماضی پر فخر محسوس ہوگا کہ امریکہ اور یورپ اپنے تجارتی بیڑے گزارنے کے لے مسلم حکومت کو باقاعدہ ٹیکس دیتے تھے اور پورا مغرب اخلاقی ، علمی،تربیتی اور فکری لحاظ سے وسیع وعریض مسلم ریاست سے مرعوب تھا۔ لیکن پھر ایک دن ایسا بھی آیاکہ دیکھتے دیکھتے 1924ء میں اپنے ایک زرخرید ایجنٹ مصطفی کمال پاشا کے ذریعے خلافت کا خاتمہ کردیا گیا اور عالمِ اسلام حصے بخروں میں تقسیم ہو گیا۔ یورپ نے اپنی، زبان، تہذیب ،کلچر، معتقدات، افکار اور رسومات کو ساری دنیا پر جبراً نافذ کرنے کی کوشش کی ،حتیٰ کہ انھوں نے اس سلسلے میں عام انسانی اور اخلاقی قدروں کو بھی پامال کرنے سے گریز نہیں کیا۔ افریقہ اور ایشیاء کے کمزور ملکوں کے باشندوں کو غلام بنا کرجانوروں کی طرح بیچنے کی تجارت کو فروغ دیا جاتا رہا۔
۸۲رجب۴۲۳۱ھ کاوہ دن گیا کہ آج تک مسلم امہ کسمپرسی کی
حالت میں ہے ۔جمہوریت کا لالی پاپ دیکر خلافت جیسی حقیقی اور فطری نظامِ
حیات سے مسلم معاشرے کو دور رکھنے کی کوشش کامیاب رہی ،اسلامی ممالک پر
مسلط مغرب سے متاثرہ حکمرانوں نے مسلم معاشرے کو علمی وفکری لحاظ سے بانجھ
کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔۔۔۔۔ کہاں وہ وقت کہ محض ایک گستاخی پر
برطانیہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ایک زمانہ آج کا بھی ہے نبی کریمﷺ کے
گستاخانہ خاکے، اسلام کی توہین، قرآن پاک کی بے حرمتی ،صحابہ واہلبیتؓ کی
تنقیص اور شعائراللہ کی پامالی ایک معمول بن چکا ہے، مگر مجال ہے کہ ستاون
اسلامی ممالک میں کسی ایک حاکم کی جبین شکن آلود ہوتی ہو۔ پیٹرول، تیل ،
سونا ، چاندی، تانبا ،کوئلہ اوردیگرمعدنی ذخائر کے باوجود مسلم ممالک کی کم
ہمتی اور یورپ کے آگے لیٹ جانے والا طرزِعمل رسواکن ہے۔دنیا کی ہرنعمت
وافرمقدار میں ہونے کے باوجود آئی ایم ایف اور ورلڈبینک سے بھیک مانگنے کی
روش نے مسلم قوم کا سرشرم سے جھکادیا ہے۔ جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس
دنیا کی بہترین فوج مسلم ممالک کے پاس ہے لیکن ا س کے باوجود فلسطین ارض
مقدس یہودیوں کے رحم وکرم پر ہے،وسطی افریقہ میں مسلمان بے یارومددگار
ہیں،برما میں مسلم جوانوں کے سروں کی فصل گاجرمولی کی طرح کاٹی جاتی ہیں،
شام میں نسل کشی کی جارہی ہے ، کشمیر جنت نظیر آتش فشاں بن چکا ہے ، بھارت
میں مسلم اقلیت کی قتل وغارت گری معمول ہے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ آج
کی مسلم امت مرکزیت سے محروم ہے۔وہ تسبیح کے ان دانوں کی طرح ہیں جو لڑی سے
نکل گئے ہوں اور منتشر ہوکر ادھر اُدھر بکھرے پڑے ہوں۔ رسول اللہ ﷺ کی
حدیث ہے :’’خلیفہ ہی وہ ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر لڑاجا تا ہے اوراسی کے
ذریعے تحفظ حاصل ہوتا ہے ‘‘۔اسی لیے شریعت میںخلافت کے قیام کو ام الفرائض
کہا گیا ہے ۔
آمریت کو آزمانے اور جمہوریت سے دل بہلانے کے بعد
ہمیں اس حقیقت کوتسلیم کرنے میں پس وپیش سے کام نہیں لینا چاہیے کہ ہر
دونظام نقائص کا مجموعہ اور نوعِ انسانی کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ امریکہ سے
لیکر افریقہ تک اور مسلم ممالک میں ان نظامہائے زندگی کے بارے میں پھیلی
بے چینی اور تشویش ہمارے دعوے کا بیّن ثبوت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا
اپنے اصل کی جانب لوٹے اور فطری نظام زندگی کو قبول کرلے ۔یہاں یہ سوال
پیدا ہوتا ہے کہ عالمی طاقتوں کی طرف سے بچھائے گئے جال سے کیسے نکلاجائے ؟
اس سلسلے میں یہ جان لیناضروری ہے کہ کسی بھی قوم کی الگ شناخت ہی ا س کا
سرمایہ ہوا کرتی ہے ۔ چنانچہ کوئی بھی قوم اپنا تعلیمی نصاب، حکومتی ،
خارجہ وداخلہ پالیسی اسی تناظر میں متعین کرتی ہے۔ مسلم قوم ایک الگ پہچان
کی مالک ہے چنانچہ اس کی حکومتی ہدایات، داخلہ وخارجہ پالیسی ، تعلیمی نصاب
، سیاسی ومعاشی نظام آفاقی اصولوں اورفطرتِ انسانی کے عین مطابق ہیں۔ آج
کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اور پورے مسلم علاقوں کی مجموعی صورتحال پر
غور کرنے کے بعد ایک انسان اسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہمیں اب عالمی استعمار
کو مکمل خیرباد کہنا ہوگا اور نہ صرف یہ کہ ہمیں استعماریت کی ہر صورت کو
اپنے علاقوں سے اُکھاڑ پھینکنا ہوگابلکہ یہی کام باقی اسلامی ممالک میں
شروع کرنے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات تجویز کرنے ہوں گے۔ آج جب امریکہ ،
نیٹو اور مغربی استعمار ہمارے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کے عین بیچ میں ہے اور
اس کی معاشی ، اخلاقی ، سیاسی اور عسکری غروروقیادت اور مکروہ پالیسی بے
نقاب ہوچکی ہے ۔ مسلم دنیا کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ ہم عالمی استعمار کے
بچھائے ہوئے سرمایہ دارانہ جال کے مقابلے میں اقوامِ عالم اور خاص طور پر
مسلم ممالک کے لیے اسلام کی بنیاد پر فیصلہ کن وژن پیش کریں ۔ یہ بات ذہن
نشین ہونی چاہیے کہ آج کے استعمار کے پاس اس نظام کے مقابل فکری، سیاسی،
اخلاقی اور عسکری صلاحیت نہیں ہے ۔ اس متبادل نظامِ حیات ونجات کاآغاز کسی
ایک مضبوط اسلامی ملک میں اس کے نفاذ سے شروع ہو اورپھر یہ اپنی
گوناگوںخصوصیات، برکات وحقائق پر مبنی ہونے کی وجہ سے ایک ایک کرکے باقی
اسلامی ممالک کو اپنے اسی وژن اور نظام میںشامل کرتا چلا جائے گا ، جس کا
ہونا ایک ممکن امر ہے۔ اس سلسلے میںوطن عزیز پاکستان آئیڈیل اور ہراول
دستے کا قرار ادا کرسکتا ہے کیونکہ یہ ان تمام ضروریات سے مالا مال ہے جو
کسی بھی ریاست کے لیے لازمی درکار ہوتی ہیں۔
پاکستان میں نفاذِاسلام
کے لیے متحر ک جماعتوں کو ضروراپنے طرزِعمل پر غور کرنا ہوگا کہ انھوں نے
آج تک کی جدوجہدمیں کیا کھویا کیا پایا؟۔ جمہوری راستے کے ذریعے اسلام
نافذ کرنے کا فلسفہ کہیں اپنی حیثیت باقی رکھ پایا ہے ؟ووٹوں کی گنتی اور
الیکشن کے چکروں نے کہیں آپ کو اصل منزل سے دور تو نہیں کردیا؟۔یہ حقیقت
ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام (خلافت) کانفاذ بھی انھی راستوں سے ہوگا جو
اسلام نے متعین کردیئے ہیں۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ کارخ مغرب کی سمت ہو
اور منزل آپ کی مشرق ہو۔؟ چنانچہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ
اپنے خودساختہ محدوددائروں سے نکل کر وسیع اور کھلے میدان عمل میں قدم
رکھاجائے ۔ فرسودہ طریقوں کو چھوڑ کر اور جمود کی کیفیت کوتوڑ کراسلامی
انقلاب کے پیغام کو بااختیار اور بااثر طبقے تک جدید اور مؤثر ذرائع اور
عقلی ونقلی دلائل وبراہین سے مزین کرکے پہنچایاجائے۔اسلام کے وضع کردہ
دائرے میں رہتے ہوئے ان مقاصد کے حصول کے لیے آسمانی وحی ، زمینی حقائق
اورمعروضی بنیادوں پر ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیاجائے ۔ روایتی ، محدود اور
فرسودہ طریقوں پر اصرارکی روش اسلامی نظام کی بالادستی کا باعث نہیں بلکہ
ملت اسلامیہ کی مزیدذلت اور پستی کا موجب بنتی ہے۔
Source: www.nawaiwaqt.com.pk
No comments:
Post a Comment