Wednesday

Gair Se Muradien Mangny Waly Tujhe Zara Bhi Aqal Nahi

غیر سے مرادیں مانگنے والے تجھے ذرابھی عقل نہیں


 حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی

محبوب سبحانی، قطب ربانی، غوث صمدانی، شہباز لا مکانی، غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی نے وعظ فرمایا، میرے حال کا اللہ تعالیٰ کو خوب علم ہے،ایسی درگاہ میں سوال کی کیا حاجت ہے؟ جو لوگ اللہ تعالیٰ کیلئے مصائب برادشت کرتے ہیں  تو اللہ تعالیٰ پر انکی تکلیفیں پوشیدہ نہیں۔ مصائب پر صبر اعلی درجہ کی بہادری ہے۔ اپنے دلوں کی اصلاح کر لو۔ کیونکہ دلوں کی اصلاح سے
تمہاری سب حالتیں درست ہوجائیں گی۔ انسان کے جسم میں گوشت کا لوتھڑا ہے۔ جب یہ تندرست ہوجائے تو  تمام جسم تندرست رہتا ہے اور جب وہ خراب  تو تمام جسم خراب ہوجاتا ہے، سمجھ رکھو وہ قلب ہے۔ اگر تم چاہتے ہوخدا تمہارا ہو رہے تو عبادت میں لگے رہو۔ مصیبت میں صبر کرو  اور اسکی رضا میں راضی رہو۔   پہلے اپنے حالات درست کرو کہ اپنے نفس کی اصلاح سے پہلے دوسروں کو وعظ نصیحت نہ سناؤ۔  کیونکہ تم میں ابھی بہت سے عیب باقی ہیں  جنکی اصلاح کی ضرورت ہے۔ نفس، حرص اور دنیا کا پیچھا  نہ کرو۔ صرف مولا ہی کے ہو رہو۔ اب تمہارے ہاتھ ایسا خزانہ لگے گا کہ کبھی ختم نہ ہوگا  اور خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہیں ہدایت نصیب ہوگی کہ جس کے بعد گمراہی نہیں ۔ گناہوں سے توبہ کرکے ذات خداوندی کی طرف بھاگ چلو۔ جب توبہ کرو تو زبان اور دل دونوں سے 
کرو۔ کیونکہ توبہ دولت  خداوندی کا دل ہے۔
Shaykh Abdul Qadir Jilani Mazar sharif, Aqwal, Story, Gaus Pak Mazar, Shirain Of Hazoor Gaus Pak, Bagdad Sharif Mazar
 گناہوں کا لباس  خالص توبہ اور حقیقی طور خدا تعالیٰ سے
 شرمسار ہو کر اتار ڈالو۔ پہلے ظاہری اعضاء کی طہارت عمل شریعت سے کرو۔ کیونکہ توبہ خالص دل کا فعل ہے۔ دوزخ کا ڈر ایمانداروں کے جگر کو چھلنی اور چہروں کو زرد اور دلوں کو غمگین بنا دیتا ہے۔ جب یہ حالت ان میں اچھی طرح قرار پکڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر اپنی مہربانی اور رحمت کا پانی برساتا ہے اور آخرت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ خوف کھاتے  ہیں۔ اپنی ضرورت  کا کھانا  پینا‘ لباس ،نکاح‘ مکان  اور ذخائر جمع  کرنا ناسمجھ یہ تو نفس  اور طبع کی ضرورت ہے  قلب اور باطن کی ضرورت یہاں ہے؟ وہ تو مولا کی طلب ہے۔ غیر سے مرادیں مانگنے والے  تجھے ذرا بھی عقل نہیں ۔کیا کوئی ایسی چیز بھی ہے جو خدا کے خزانے میں نہیں۔ تقدیر کے پرنالے کے نیچے صبر کا تکیہ  لگا کر  راضی برضا کا ہار گلے میں پہن کر کشائش کے انتظار میں عبادت گزار کر میٹھی نیند سے سو رہو۔  جب تم ایسا کرو گے  تو تقدیر کا مالک اپنے  عقل اور احسان سے تم پر ایسی نعتیں نازل کرے گا کہ جن کی تم  اچھی طرح طلب اور تمنا نہ کر سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  میں عیش کرنے والو شکر یہ کہاں ہے۔ غافل! نعمتیں وہ عطا کرتا ہے اور تم غیر سے  سمجھتے ہو اور جو نعمتیں ابھی حاصل نہیں ہوئیں ان کی انتظاری میں رہتے ہو اور تم  نعمتوں کے ذریعہ سے  نافرمانی پر کمر باندھتے ہو۔ اپنی نفسانی خواہشات اور حرص کو چھوڑ کر اس گروہ پاک کے  قدموں کے نیچے بچھ جائو ان کے سامنے  خاک  کی طرح ناچیز ہو جائو۔ ایماندار زندہ ہے اور کافر مردہ ہے۔ خدا پرست زندہ ہے، بت پرست مردہ ہے۔ افسوس  تمہارا انفاق والا  جھوٹا ناشکرا گنہگار اور بت پرست ہے۔ بہر حال خواہش نفسانی پر سوار ہو جائو اور وہ تم پر سوار نہ ہونے پائے۔ افسوس  ہے کہ خود غرق ہو رہے ہو۔ دوسروں کو کیسے بتائو گے خود اندھے  ہو اوروں کے کیسے رہبر بنو گے۔ رہبر بننا تو آنکھ والوں  کا کام ہے۔ دریا میں ڈوبتے  کو چالاک تیراک بچا سکتا ہے۔ اللہ جل شانہ کی طرف  عارف کامل ہی رجوع کرا سکتا ہے۔ جو شخص خود گم ہو دوسروں کی کیا رہبری کرے گا۔ افسوس ہے کہ تم زبان سے پرہیز گاری جتاتے ہو اور دل گنہگار ہے ۔ زبانی شکریہ ادا کرتے ہو دل ناشکرگزار ہے۔ اے فرزند آدم! میری طرف سے تجھ پر خیر و برکت کا نزول ہوتاہے اور تیری طرف سے برائی آتی ہے پکا مسلمان اپنے نفس‘ شیطان اور خواہش کی پیروی نہیں کرتا۔ شیطان کو پہچانتا  بھی نہیں کہ اس کی تابعداری کرے۔ دنیا کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کے سامنے ذلیل  ہو بلکہ اس کو ناکاری سمجھتا ہے۔ آخر کی طلب کرتا ہے   ۔ اس  لئے حصول کے  بعد اس کو بھی ترک کر کے اپنے مالک جل شانہ سے  جا ملتا ہے۔ ہر وقت اس کی عبادت اسی کے حصول  کے واسطے کرتا ہے۔


No comments:

Post a Comment