Monday

Hazrat Syedna Sidiq e Akbar R.A

حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ 


دل و جاں سے فدائے مصطفیؐ ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
رفیق ِ خلوتِ خیر الوریٰؐ ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
رہِ اہل ِ صفا کے رہنما ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں

کہ محبوبِؐ خدا کے دلربا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
پیمبرؐ پر ہے جاں جن کی فدا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
کیا حق نے جنہیں سب کچھ عطا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں


Hazrat Syedna Sidiq e Akbar R.A

نبوت کی معیت میں سدا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
سراپا عشق ، سر تا پا وفا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
نبیؐ کے صِھر ، مردِ بے ریا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں

سبھی رشتے نبھائے خوش ادا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
رہے وہ متّبِع کامل صحابی بھی ، خلیفہ بھی
وہی اہل ِ وِلا کے پیشوا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں

تجلی ریز ہے مینار دنیا میں صداقت کا
ریاضِ خلد کی بادِ صبا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
شہِؐ دوراں ہمارے دستگیر اِمروز و فردا کے

ہماری آرزو اور مدعا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
علیؓ کے ہم نوا ، حسنینؓ کے ہیں مونس و ہمدم
بہ جاں آلِ عباؑ پر وہ فدا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں

کیا قربان سارا گھر نبیؐ کے اِک اشارے پر
وہ اہل ِ ہمت و جود و سخا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
گرامی قدر ابو سیّدہ حضرت حمیراؓ کے

وہ ختم الانبیائؐ کے ہم نوا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
رہے وہ عمر بھر شاداں محمدؐ کی غلامی پر
معینؔ الحق ! عجب مردِ خدا ، صدیق ِ اکبرؓ ہیں
ﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺ


کلام: پیر غلام معین الحق گیلانی گولڑہ شریف

Sunday

Shair e Khuda Hazrat Ali R.A

شیرِِ خدا سیدنا علی المرتضےٰ رضی اللہ عنہ


خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضٰی ؓکے فضائل و مناقب اور کارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق روشن ہیں جس سے  لوگ قیامت تک  ہدایت و راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضور  ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم میری طرف سے اس مرتبہ پر ہو جس مرتبہ پر حضرت ہارون ؑ، حضرت موسیٰ ؑکی طرف سے تھے، مگر بات یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ (بخاری و مسلم)
Shair e Khuda Hazrat Ali R.A

آپ کا نام علی، لقب حیدر و مرتضٰیٰ، کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے۔ آپ کے والد ابو طالب اور حضور    ﷺ             کے والد ماجد
 حضرت عبد اللہ دونوں حقیقی بھائی ہیں۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد تھیں۔ماں باپ دونوں کی نسبت سے سیدنا حضرت علیؓ میں ہاشمی سرداروں کی تمام خصوصیات موجود تھیں۔  چہرہ مبارک پر عبادت و ریاضت کے آثار پائے جاتے تھے۔  بڑی آنکھیں اورکشادہ پیشانی پر سجدے کے نشان تھے۔ معمولی لباس اور سادہ  عمامہ  زیب تن فرماتے۔ آپ کی گفتگو علم و حکمت اور دانائی سے بھرپور ہوتی۔ آپ نے بچپن  ہی سے ہی حضور ﷺ  کی  آغوشِ محبت میں پرورش پائی اور  حضور ﷺ  کی سب سے چھوٹی  بیٹی خاتونِ جنت سیدہ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا۔ حضرت علیؓ اعلیٰ درجہ کے خطیب ، میدانِ جنگ میں تلوار کے دھنی اور مسجد میں زاہدِ شب بیدارمانے جاتے تھے۔ آپ مفتی و قاضی اور علم و عرفان  میں بے مثل خصوصیات کی مالک تھے۔ علیؓ ابن ابو طالب نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے آپ کو نمک، کھجور، دودھ گوشت سے رغبت تھی، غلاموں کو آزاد کرتے اور کھیتی کی دیکھ بھال کرتے۔ اپنے دور خلافت میں آپ بازاروں کا چکر لگا کر قیمتوں کی نگرانی فرماتے، گداگری سے لوگوں کو منع فرماتے ۔ جب نماز کا وقت آتا تو آپ کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ ’’اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر اتارا تو وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے عاجز ہو گئے‘‘ ۔ آپ  میں تقویٰ اور خشیت الٰہی بہت زیادہ تھی، ایک بار آپ ایک قبرستان میں بیٹھے تھے کہ کسی نے کہا کہ! اے ابو الحسن آپ یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ فرمایا میں ان لوگوں کو بہت اچھا ہم نشین پاتا ہوں یہ کسی کی بدگوئی نہیں کرتے اور آخرت کی یاد دلاتے ہیں۔ایک مرتبہ آپ قبرستان میں تشریف لے گئے اور وہاں پہنچ کر قبر والوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا!اے قبر والوں! اے بوسیدگی والو! اے وحشت و تنہائی والو! کہو کیا خبر ہے کیا حال ہے، ہماری خبر تو یہ ہے کہ تمہارے جانے کے بعد مال تقسیم کر لیے گئے  اور اولادیں یتیم ہو گئیں بیویوں نے دوسرے شوہر کر لیے… یہ تو ہماری خبر ہے، تم بھی اپنی خبر سنائو! اس وقت کمیل نامی شخص آپ کے ہمراہ تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت علیؓ نے فرمایا کہ! اے کمیل اگر ان (مردوں) کو بولنے کی اجازت ہوتی تو یہ جواب دیتے کہ بہترین سامانِ آخرت پرہیز گاری ہے ۔اس کے بعد حضرت علیؓ رونے لگے اور فرمایا اے کمیل قبر اعمال کا صندوق ہے اور موت کے وقت یہ بات معلوم ہوتی ہے، ایک مرتبہ جلیل القدر صحابی سیدنا حضرت امیر معاویہؓ کے اصرار پر ضرار اسدیؒ نے خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علیؓ کے اوصاف و صفات بیان کرتے ہوئے کہا کہ !  ’’ اللہ کی قسم حضرت علی المرتضٰیؓ بڑے طاقتور تھے، فیصلے کی بات کہتے تھے اور انصاف کے ساتھ حکم دیتے تھے۔ علم و حکمت کے دریا ان کے اطراف سے بہتے جو دنیا اور اس کی تازگی سے متوحش ہوتے تھے۔حضرت علی ؓ رات کی تنہائیوں اور وحشتوں سے انس حاصل کرتے تھے۔ روتے بہت تھے اور فکر میں زیادہ رہتے تھے،وہ ہمیشہ اھلِ دین کی تعظیم کرتے تھے اور مساکین کواپنے پاس بٹھاتے تھے کبھی کوئی طاقتور اپنی طاقت کی وجہ سے ان سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی امید نہ کر سکتا تھا اور کوئی کمزور ان کے انصاف سے مایوس نہیں ہوتا تھا ‘‘۔یہ سن کر سیدنا حضرت امیر معاویہ ؓرونے لگے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو ابو 
الحسنؓ (علیؓ) پر اللہ کی قسم وہ ایسے ہی تھے۔
Shair e Khuda Hazrat Ali R.A

 سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ غزوہ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے، ہر معرکہ میں سیدنا حضرت علیؓ نے اپنی 
شجاعت و بہادری اور فداکاری کا لوہا منوایا  احد و بدر، خندق و حنین اور خیبر میں اپنی جرأت و  بہادری کے  جوہر دکھائے۔ایک موقع پر  حضور ﷺ  ؐنے فرمایا کہ! ’’علیؓ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں‘‘  ۔ہجرت کی شب   حضور ﷺکے بستر مبارک پر آرام فرما ہوئے،  آپ نے آخری وقت میں  حضور ﷺ   کی تیمارداری کے فرائض سرانجام دیئے اور دیگر صحابہ کرامؓ کے ہمراہ آپ کو ’’غُسلِ نبوی ﷺ‘‘ کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ آپ ’’عشرہ مبشرہ‘‘ جیسے خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہیں جن کو ﷺ   نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت و خوشخبری دے  دی تھی۔
     9؁ھ میں جب ﷺ نے خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ’’امیر حج‘‘ بنا کر روانہ کیا اور ان کی روانگی کے بعد سورہ برأت نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ پر ﷺ نے سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ کو مامور کیا، آپ کو بچپن میں قبولِ اسلام کی سعادت نصیب ہوئی اور بچوں میں سے سب سے پہلے آپ ہی دولتِ ایمان سے منور ہوئے، آپ کو ’’السابقون الاولون‘‘ میں بھی خاص مقام اور درجہ حاصل ہے۔
آپ ’’بیعتِ رضوان‘‘ میں شریک ہوئے اور ’’اصحابُ الشجرہؓ‘‘ کی جماعت میں شامل ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں راضی ہونے اور جنت کی بشارت و خوشخبری دی۔ آپ ’’اصحابِ بدرؓ‘‘ میں سے بھی ہیں جن کی تمام خطائیں اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیں۔حضورﷺ نے حضرت علی المرتضٰیؓ سے بغض رکھنے کو محرومی کا سبب قرار دیا۔ آپ بہت زیادہ عبادت گزار تھے۔  اُمّ المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ بہت زیادہ روزہ دار اور عبادت گزار تھے۔ آپ بہت زیادہ سخاوت کرنے والے تھے کوئی سائل و حاجت مند آپ کے در سے خالی نہ جاتا تھا… آپ قرآن مجید کے حافظ اور اس کی ایک ایک آیت کے معنیٰ اور شانِ نزول سے واقف تھے۔ سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ ہی وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں جن کو  حضور ﷺ نے جنگ خیبر کے موقعہ پر فتح کا جھنڈا عنایت فرمایا۔ آپ کی آنکھیں آشوب کی ہوئی تھیں حضور ﷺ   نے فرمایا کہ حضرت علیؓ کو بلاؤ، پیش ہونے پر  حضور ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا، پھر  حضور ﷺ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا (صحیح بخاری و مسلم) خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ نے تین ماہ کم پانچ سال تک تختِ خلافت پر متمکن رہے۔اس  کے بعد عبد الرحمن بن ملجم خارجی کے ہاتھوں زخمی ہو کر 21رمضان المبارک کو شہادت  پا کر کوفہ کے نز دیک مقام نجف میں دفن ہوئے۔ 
رضی اللہ تعالیٰ عنہ

مولانا مجیب الرحمن انقلابی

Rajab Ul Murajab K Fazail o Barkaat

رجب المرجب کے فضائل و برکات 

رجب توبہ کا مہینہ ہے ‘   جس میں اللہ تعالیٰ نیکیاں دگنی فرما دیتا ہے۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :’’پانچ راتیں ہیں کہ جن میں اللہ دعا کو رد نہیں کرتا ‘ ماہ ِ رجب کی پہلی رات ‘ ماہِ شعبان کی نصف رات ‘ جمعہ کی رات ‘ عیدالفطر کی رات اور قربانی کی رات‘‘۔
(السید احمد الھاشمی ‘ مختار الاحادیث النبویہ و الحکم المحمدیہ ‘ حدیث نمبر : ۸۶۵)
ماہ رجب بڑی فضیلت کا حامل ہے۔ رجب لفظ ترجیب سے نکلا ہے جس کے معنی تعظیم کے ہیں۔سورت توبہ کی آیت نمبر ۶۳ میں ارشاد ہے :
’’مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے ‘ اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں ۔ یہی درست دین ہے ‘ تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ذی قعدہ ‘ ذی الحجہ ، محرم اور رجب کو محترم قرار دیا ۔ان حرمت والے مہینوں میں نافرمانی بہت ہی قبیح ہے ۔ جس طرح مقدس مقامات اور مبارک اوقات میں نیکی کا ثواب زیادہ ملتا ہے اسی طرح ان مقاما ت اور اوقات میں نافرمانی کی سزا زیادہ ہوتی ہے۔ (بحوالہ : پیر محمد کرم شاہ الازہری : ضیاء القرآن ‘ جلد دوم ‘ صفحہ نمبر ۲۰۲)
شب معراج کا واقعہ (۷۲ رجب) :
ماہ رجب کی فضیلت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس میں پہلی 
بار حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئے تھے۔ اسی ماہ تاریخ اسلام میں شب معراج کا واقعہ پیش آیا جو بہت اہمیت اور عظمت کا حامل ہے ۔یہ واقعہ ۷۲ رجب کو پیش آیا۔ اس ماہ تکمیل عبودیت ہوئی تھی۔ یہ معجزہ ایک ایسا اعزاز ہے جو کسی اور نبی کو 
Rajab ki Fazilat
نہیں ملا۔
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضور
 اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے ستائیس رجب کو روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ ماہ کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : یاد رکھو  رجب اللہ کا مہینہ ہے ۔ جس نے رجب میں ایک دن روزہ رکھا ‘ ایمان کے ساتھ اور محاسبہ کرتے ہوئے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضوانِ اکبر (یعنی سب سے بڑی رضا مندی) لازم ہو گئی‘‘(بحوالہ : امام غزالیؒ ‘امکاشفتہ القلوب ‘  صفحات : ۸۷۶۔۰۸۶)
نو سو برس عبادت کا ثواب :
رجب کے پہلے جمعہ سے جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہر فرشتہ رجب کے روزے رکھنے والے کے لئے مغفرت کی دعا کرتا ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ماہ حرام میں تین روزے رکھے ‘ اس کے لئے نو سو برس کی عبادت کا ثواب لکھ دیا گیا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ  سے نہ سنا ہو تو میرے کان بہرے ہو جائیں ۔
حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی ؒاپنی تصنیف غنیۃ الطالبین میں فرماتے ہیں کہ ایک بار رجب کا ہلال دیکھ کر حضرت عثمانؓ نے جمعہ کے دن منبر پر چڑھ کر فرمایا : کان کھول کر سن لو یہ اللہ کا مہینہ ہے اور زکوٰۃ اداکرنے کا مہینہ ہے۔ اگر کسی پر قرض ہو تو اسے ادا کر دے ، جو مال باقی ہے اس کی زکوٰۃ ادا کر دے۔  رجب کے روزوں کی فضیلت :
اگر کوئی رجب میں ایک دن کا روزہ رکھے اور اس کی نیت اللہ تعالیٰ سے ثواب کی ہو اور خلوص سے اللہ کی رضا کا طلب گار ہو تو اس کا ایک دن کا روزہ اللہ تعالیٰ کے غصے کو بجھا دے گا اور آگ کا ایک دروازہ بند کرا دے گا اور اگر اسے تمام زمین بھر کا سونا دیا جائے تو اس ایک روزے کا پورا ثواب نہ مل سکے گا اور دنیا کی کسی چیز کی قیمت سے اس کا اجر پورا نہ ہو گا۔  اگر یہ اجر پورا ہو گا تو قیامت کے دن ہی حق تعالیٰ پورا فرمائے گا ۔ اس روزے دار کی شام کے وقت افطار سے پہلے دس دعائیں قبول ہوں گی ۔ اگر وہ دنیا کی کسی چیز کے لئے دعا مانگے گا تو حق تعالیٰ وہ اسے عطا فرمائے گا ۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ  سے سنا کہ آپﷺ نے فرمایا : جو رجب کا ایک روزہ رکھ لے گویا اس نے ایک ہزار سال کے روزے رکھے اور گویا اس نے ایک ہزار غلام آزاد کئے اور جو اس میں خیرات کرے گویا اس نے ایک ہزار دینار خیرات کیے اور اللہ تعالیٰ اس کے بدن کے ہر بال کے عوض ایک ہزار نیکیاں لکھتا ہے ۔ ایک ہزار درجے بلند فرماتا ہے اور ایک ہزار برائیاں مٹا دیتا ہے اور اس کے لئے رجب کے ہر روزے کے عوض اور ہر صدقے کے عوض ایک ہزار حج اور ایک ہزار عمرے لکھ لیتا ہے ۔
عمر بھر کے گناہوں کا کفارہ :
حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے : جس نے ستائیسویں (۷۲) کا روزہ رکھا ‘ اس کے لئے یہ روزہ تمام عمر بھر کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا اور اگر وہ اس سال مر جائے گا تو شہید ہو گا ۔
 حدیث پاک میں ہے کہ جس نے رجب کے مہینے میں ایک بار سورۃ اخلاص (یعنی قل ھو اللہ شریف)  پڑھی اللہ تعالیٰ اس کے پچاس سال کے گناہ بخش دے گا ۔  حضرت علی ؓ پورے سال میں خاص طور سے عبادت کے لئے ان چار راتوں میں خوب سرگرمْ عمل رہا کرتے تھے ۔ رجب کی پہلی تاریخ میں ‘ عید الفطر کی رات میں ‘ عید الاضحی کی رات میں اور نصف شعبان کی رات میں ۔
 قرآن و حدیث کی روشنی میں ماہ رجب کی فضیلت  میں بیان کیا گیاہے کہ یکم اور 27 رجب ) معراج شریف (کو روزہ رکھا جائے ۔ اس ماہ میں  کثرت سے توبہ کی جائے ۔  اس کے علاوہ تین روزے بروز جمعرات ‘ جمعتہ  اور ہفتہ ضرور 
  رکھے جائیں اور زکوٰۃ دی جائے ۔

ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی

Friday

Pir Syed Jamaat Ali Shah R.A

پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری
Pir Syed Jamaat Ali Shah R.A



برصغیر کے پاک وہند میں دین اسلام کے فروغ او ر مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح کا قومی فریضہ انجام دینے والی شخصیات میں حضرت امیر ملت حافظ پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری قدس کا مقام کئی لحاظ سے ممتاز ومنفرد ہے۔ آپ بیک وقت میدان شریعت وطریقت  اورادب وسیاست کے  عدم النظیر شہسوار تھے۔
آپ 1834ء میں علی پور سیداں ضلع سیالکوٹ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام حضرت پیر سید کریم شاہ تھا جو خود بھی عارف
با اللہ اور ولی کامل تھے۔ انہوں نے اس ہونہار بیٹے کی تعلیم وتربیت کا خاطر خواہ بندوبست کیا۔ آپ نے سات سال کی عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا۔ بچپن سے ہی آپ کی پیشانی پر نورِ ولایت ظاہر ہوتا تھا اور مجدانہ بزرگی کے آثار نمایاں تھے۔ آپ نے نامور اساتذہ عصر سے کتب معقول ومنقول ،تفسیر ،فقہ کلام ،میراث ،منطق اور حدیث کی تعلیم حاصل کرکے سند فضلیت حاصل کی۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں ۔ آپ امام کاملین قطب زماں بابا جی فقیر محمد چورا ہی قدس سرہ العزیز کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ تقشبندیہ میں داخل ہو ئے اور خرقہ خلافت سے نوازے گئے ۔ آپ نے افغانستان سے راس کماری اور کشمیر سے مدراس اور برما سے ایران تک تبلیغ و اشاعت اسلام کے سلسلہ میں گرانقد ر خدمات سر انجام دیں اور لا تعداد غیر مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔برصغیر پاک و ہند میں جا بجا دینی مدارس ،مساجد، سرائیں ، رفاعی ادارے اور علاج معالجے کے لئے ہسپتال تعمیر کرائے1885ء میں لاہور میں انجمن نعمانیہ کی بنیاد رکھی۔اسی طرح 1900میں انگریز کے خود کا شتہ پودے مرزا غلام احمد قادیانی نے اعلان نبوت کیا تو علمائے کرام اور مشائخ عظام نے ختم نبوت کی حقانیت کی تحریک میں پوری سرگرمی دکھائی ۔ مگر اس سلسلہ میں جو کوششیں امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری نے کیں ،وہ تاریخ کا ایک سنہری باب ہیں ۔آپ نے22مئی 1908کو بادشاہی مسجد میں خطبہ جمعہ میں لاکھوں کے اجتماع میں پیشگوئی کر دی کہ مرزاغلام احمد  کا خدائی فیصلہ ہو چکا ہے اور اللہ کریم اگلے چند دنوں میں امت مسلمہ کو اس سے نجات عطا فرمائے گا ۔
Pir Syed Jamaat Ali Shah R.A

مسلم یونیورسٹی کے قیام کے سلسلہ میں چندہ جمع کرنے کی مہم شروع ہوئی تو آپ کی اپیل پر لاکھوں روپے کا فنڈ جمع ہوگیا اور آپ نے خود بھی کئی لاکھ روپے چندہ دیا۔  1910ء میں سلطان عبد الحمید خان خلیفہ وقت نے   آپ کے مشورے سے حاجیوں کی سہولت اور آمد ورفت کے لئے جدہ سے مدینہ منورہ تک حجاز ریلوے لائن کا منصوبہ  شروع کیا۔مارچ 1921میں فیصل آباد (لائل پور) میں خلافت کانفرنس میں تاریخی خطبہ صدارت دیا اور تحریک خلافت میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی ابتداء میں ہندوؤں نے مسلمانوں کو مرتد بنانے اور قتل کرنے کے لئے شدھی تحریک کا آغاز کیا ۔ ہند وؤں کو اسلام کے خلاف نفرت کا درس دیا جانے لگا ۔اس کے علاوہ ہندوؤں نے جبہ ودستار پوش ملاؤں کے ایک گروہ کو طمع ولالچ دے کر  مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ اس فتنہ کو کچلنے کے لئے آپ نے ہندستان کے طوفانی دورے کئے  اور اپنی جیب خاص سے لاکھوں روپے صرف کر کے اسلام اور قوم کی لاج رکھ لی ۔ حضرت امیر ملت خود بڑی متحرک فعال اور حساس طبیعت کے مالک تھے   سواد ِ اعظم کی فعال تنظیم کے لئے  آپ کی سرپرستی میں 19-18-17مارچ 1925کو مراد آباد میں پہلی آل انڈیا سنی کانفرنس بڑی شان و شوکت سے منعقد ہوئی ۔امیر ملت نے اپنے خطبہ صدارت میں ارشاد فرمایا کہ’’اس میں کوئی کلام نہیں کہ جو برداشت ہمارے مذہب میں ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں ہے مگر یہ یاد رہے کہ ہم کسی شعائر اسلام کو ترک کرنے کے لئے کسی حال میں بھی تیار نہیں ہوں گے۔  اس موضوع پر آپ نے تین گھنٹہ کا طویل خطبہ ارشاد فرمایا ۔1930اپریل میں سارداایکٹ جو کہ ایک غیر اسلامی قانون اور مداخلت فی الدین تھا آپ نے انگریزکے اس قانون کی بھرپور مخالفت کی، لہٰذا یہ قانون نافذ ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا ۔ جب 1936میں قائداعظم محمد علی جناح نے برطانیہ سے واپسی پر مسلم لیگ کی تنظیم نو کی اور ہندو مسلم دو جداگانہ قوموں کی آواز بلند کی تو برصغیر میں سب سے پہلے قائد اعظم نے حضرت امیر ملت کے پاس لاہور میں حاضری دی۔  23مارچ 1940کو آپ نے قرار داد پاکستان کے موقع پر قائداعظم کو اپنی مکمل تائید و حمایت کا یقین دلایا اور ان کی ترقی مدارج اور کامیابی کے لئے دعا کی ۔
    آل انڈیا بنارس سنی کانفرنس 1945  میں منعقد ہوئی یہ کانفرنس کئی دن جاری رہی ۔ حضرت امیر ملت صدر تھے اور مولانا نعیم الدین مراد آبادی جنرل سیکرٹری   ،اس کانفرنس نے تحریک پاکستان کی منزل واضح کر دی ۔حضرت امیر ملت کو 100سال سے زیادہ کی عمرمیں ضعیفی و ناتوانی کے باوجود جب جلسہ گاہ میں لایا جا رہا تھا تو آپ کو ان باتوں کی خبر ہوگئی ۔ آپ نے کرسی صدارت پر تشریف فرما ہوتے ہی ارشاد فرمایا کہ حکومت کانگرس اور مخالفین پاکستان کان کھول کر سن لیں کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ سے پاکستان کی منظوری ہوچکی ہے اور پاکستان ضرور بن کر رہے گا ۔
Pir Syed Jamaat Ali Shah R.A

 عشق رسولﷺ سے آپ ہمہ وقت سر شار رہتے ۔حضور نبی کریمﷺ کا نام سنتے ہی آپ کی آنکھیں پُرنم ہو جاتی تھیں۔ 72سے زائد مرتبہ آپ حج و عمرہ و زیارات روضہء رسولﷺ سے بہرہ مند ہوئے ۔ آخر کار ولایت آسمانی کے یہ نیر اعظم 26-27ذیعقد 1370ھ بمطابق 30-31اگست 1951ء بروز جمعرات و جمعہ کی درمیانی شب رات 11بجے اس دار فانی سے سفر فرما گئے ۔ آپ کا روضہ  علی پور سیداں شریف ضلع ناروال میں واقع ہے جہاں 10، 11مئی کو  سجادہ نشین صاحبزادہ پیر سید منور حسین جماعتی  کی زیر  سرپرستی آپ کا سالانہ عرس ہوتا ہے۔

ایم ایم جماعتی