Saturday

Amir-ul-Momineen-Hazrat-Usman-e-Ghani-3rd-islamic-caliph

امیر المومنین حضرت عثمان غنیؓ

آپ کی ولادت عام الفیل کے چھٹے سال ہوئی۔آپ کا نام ہے عثمان اورکنیت ابو عمر تھی۔ بعض کہتے ہیں ابو عبداللہ اور ابو یعلی۔ آپ کی کنیت تھی قبولِ اِسلام سے پہلے آپ کی کنیت ابو عمر تھی اورقبولِ اسلام سے قبل ہی آپ کی شادی حضرت سیّدہ بی بی رقیہؓ سے ہوئی‘ اِن کے بطن پاک سے حضرت عبداللہ ؓ پیدا ہوئے تو آپ کی کنیت ”ابو عبداللہ“ ہو گئی۔
آپ کا سلسلہ نسب والد کی طرف سے اِس طرح ہے :۔ عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن اُمیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرة بن کعب بن لوئی بن غالب بن قرشی اموی۔ (علی ثم المدنی)
آپ کی والدہ کا نام اروی بنت کریز بن ربیعہ بنت حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف تھا۔ امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان غنیؓ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں ”عبد مناف“ پر نبی کریم صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم سے مل جاتاہے۔ اِس لئے وہ اپنی والدہ کی طرف سے حضور نبی کریم صلیﷲعلہہ وآلہ وسلم کے قریشی رشتہ دار ہیں۔
 آپ اِبتدائے اِسلام ہی میں اِیمان لے آئے تھے۔ امیر المومنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی دعوت پر اِسلام لائے۔ ”حضرت ابن اِسحاقؓ کہتے ہیں کہ آپ نے امیر المومنین حضرت سیّدنا ابوبکرصدیقؓ‘ امیر المومنین حضرت سیّدنا علیؓ اور حضرت زید بن حارثہؓ کے بعد اِسلام قبول کیا۔“
حضرت ابن سعدؓ نے حضرت محمد بن ابراہیم بن حارث بن تمیمیؓ کی زبانی لکھا ہے: ”امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان بن عفانؓ کے اِسلام قبول کرنے کے بعد آپ کے چچا حکم بن ابی العاص بن اُمیہ نے آپؓ کو پکڑکر ایک کمرے میں بند کر دیا اورکہا‘ تم نے اپنا آبائی مذہب ترک کرکے ایک نیا مذہب اِختیار کر لیا ہے‘ جب تک تم اِس نئے مذہب کو نہیں چھوڑو گے میں تمہیں آزاد نہیں کروں گا (اِسی طرح بندرکھوں گا)۔ یہ سُن کرامیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان غنیؓ نے اپنے چچا سے فرمایا: چچا‘ اللہ کی قسم میں مذہب اِسلام کبھی نہیں چھوڑوں گا اور اِس دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ اِس طرح حکم بن ابی العاص نے جب آپ کو اِسلام پر مستحکم اور ثابت قدم پایا تو مجبور ہوکر قید و بند سے آزاد کر دیا۔“
امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان غنیؓ کی شادی حضرت سیّدہ بی بی رُقیہؓ سے ہوئی۔ اُس وقت مکہ مکرمہ میں یہ بات مشہور تھی :۔ ”سب سے اچھا جو جوڑا دیکھا گیا ہے وہ سیّدہ حضرت رُقیہؓ اور امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان غنیؓ ہیں۔“ آپ سے حضرت عبداللہ ؓ پیدا ہوئے۔ ”حضرت عبداللہ ؓ بچپن ہی میں فوت ہو گئے جبکہ آپ کی عمر ابھی چھ سال تھی۔“
جب مسلمانوں سے کفار کی عداوت سے حالات مخدوش ہوگئے تو امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان غنیؓ نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا اِرادہ فرمایا: اِس موقع پر رسولِ کریم صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ”(حضرت سیّدہ بی بی) رُقیہؓ کو بھی اپنے ساتھ لے جا۔“ حضرت سیّدہ بی بی رُقیہؓ وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے ہجرت فی سبیل اللہ کی سُنّت کو اپنے شوہر کا ساتھ دے کر قائم کیا۔ رسولِ کریم صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین حضرت سیّدنا ابو بکر صدیقؓ کو فرمایا: ”اے ابوبکرؓ یہ دونوں پہلے ہیں جنہوں نے حضرت لوطؑ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی ہے۔ اللہ (تعالیٰ) اِن دونوں میاں بیوی کے ساتھ ہو اور حضرت لوطؑ کے بعد امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمانؓ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ اللہ (تعالیٰ) کےلئے ہجرت کی ہے۔“
حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم صلیﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کا کوئی دوست ہوتا ہے اور میرے دوست جنت میں (حضرت) عثمانؓ ہیں۔“ (ترمذی، ابن ماجہ مشکوٰة)
حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ حضور نبی کریم صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم، ابو بکرؓ ‘ عمرؓ اور عثمانؓ اُحد پہاڑ پر چڑھے تو پہاڑ میں جنبش پیدا ہوئی‘ رسولِ کریم صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم نے اپنے پاؤں سے اُسے مارا اور فرمایا: ”اے اُحد! (پہاڑ) ٹھہر جا کہ تجھ پر ایک نبی صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم، ایک صدیقؓ اور دو شہید ہیں۔ “(مشکوٰة، بخاری، مصنف عبدالرزاق، مجمع الزواید جلد، مسند احمد، ترمذی) پہاڑ خوشی سے ہلنے لگا ‘جھومنے لگا کہ اُس پر نبی صلیﷲ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامؓ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے مقبول اور محبوب بندے ساری خلقت کے محبوب ہوتے ہیں‘ اُن کی تشریف آوری سے سب خوشیاں مناتے ہیں ‘ اُنہیں پتھر اور پہاڑ بھی جانتے ہیں۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ میں نبی کریم صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (فِی حَائِطٍ مِّنَ الحِیطَانِ) مدینہ منورہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں تھا (حائط دراَصل دیوار کو کہتے ہیں پھر اُس باغ کو کہہ دیتے ہیں جو چار دیواری سے گھراہوا ہو‘ یہاں وہی مراد ہے) حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اُس باغ کے دروازے پر حضورصلیﷲعلیہ وآلہ وسلم کے دربان بن کر بیٹھے تھے۔ حضور نبی کریم صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم وسطِ باغ میں جلوہ اَفروز تھے۔ (باغ میں) ایک صاحب تشریف لائے اور دروازہ کھولنے کےلئے کہا‘ نبی کریم صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِفتَح لَہ وَبَشِّرہُ بِالجَنَّةِ”آنے والے صاحب کےلئے دروازہ کھول دو اور اُنہیں جنت کی بشارت دے دو۔“ جب دروازہ کھولا تو سیّدنا ابو بکر صدیقؓ تھے۔ (حضرت) ابو موسیٰ اشعریٰ ؓ فرماتے ہیں‘ میں نے اُنہیں رسولِ کریم صلیعلیہ وآلہ وسلم کی بشارت عطا فرما دی۔ اُنہوں نے اللہ کا شکر اَدا کیا۔ پھر اور صاحب آئے‘ اُنہوں نے بھی دروازہ کھلوایا تو نبی کریم صلیعلیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِن کےلئے بھی دروازہ کھول دو اِن کو بھی جنت کی بشارت دے دو تو وہ سیّدنا عمرؓ تھے۔ میں نے آپ کو بھی نبی کریم کے فرمان کی خبر دی۔ اُنہوں نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر ایک اور صاحب تشریف لائے‘ اُنہوں نے دروازہ کھلوایا‘رسولِ کریم صلیعلیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعریٰ ؓ کو فرمایا: اِفتَح لَہ وَبَشِّرہُ بِالجَنَّةِ عَلٰی بَلوٰی تُصِیبُہ”اُن کےلئے بھی دروازہ کھول دو اور اُنہیں بھی جنت کی بشارت دو اور مصیبت پر جو اُنہیں پہنچے گی۔“ فرماتے ہیں‘ اَب سیّدنا عثمان غنیؓ تشریف لائے‘ میں نے اُنہیں نبی کریم صلیعلیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی خبر دی۔ اُنہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا: اَللّٰہُ المُستَعَانِ ”اللہ مدد گار ہے۔“ (بخاری، مسلم‘ مشکوٰة‘ ترمذی، مسند احمد حلیة الاولیائ)
حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ جب رسولِ کریم صلیعلیہ وآلہ وسلم نے بیعتِ رضوان کا حکم فرمایا تو سیّدنا عثمان غنیؓ مکہ مکرمہ کی طرف
رسول اللہصلیعلیہ وآلہ وسلم کے قاصد تھے۔ نبی کریم صلیعلیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے بیعت لی تو رسولِ کریم صلیعلیہ وآلہ وسلمنے فرمایا: ”عثمانؓ اللہ اور رسولِ کریم صلیعلیہ وآلہ وسلمکے کام میں گئے ہیں۔ پھر رسولِ کریم صلیعلیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا تو رسول اللہ صلیعلیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ عثمانؓ کےلئے اُن کے ہاتھوں سے بہتر ہو گیا جو اُن کے اپنے لئے تھے۔“(ترمذی، مشکوٰة)

 علامہ منیر احمد یوسفی

No comments:

Post a Comment