Saturday

Hazrat Usman e Ghani (R.A)

سخاوت وحسن جمال کا پیکر

ابن سعد بن یربوع مخزومی رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ میں مسجد میں گیا ایک شخص (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) حسن الوجہ سوئے ہوئے تھے ان کے سر کے نیچے اینٹ تھی یا اینٹ کا ٹکڑا تھا۔ میں کھڑا کا کھڑا ان کی طرف دیکھتا رہ گیا ان کی طرف دیکھتا تھا اور ان کے حسن وجمال سے متعجب وحیران تھا انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور فرمایا۔ اے لڑکے کون ہو؟ میں نے انہیں اپنے متعلق بتایا ان کے قریب ایک لڑکا سویا
ہوا تھا۔ آپ نے اسے بلایا مگر اس نے جواب نہ دیا آپ نے مجھے فرمایا اسے بلاو¿ تو میں نے اسے بلایا تو آپ نے اسے حکم دیا اور مجھے فرمایا بیٹھ جاو¿۔ وہ لڑکا چلاگیا اور ایک حلہ اور ایک ہزار درہم لے کر واپس آگیا۔ مجھے وہ حلہ (جوڑا) پہنا دیا اور ہزار درہم اس جوڑے کی جیب میں ڈال دئیے۔
میں اپنے باپ کے پاس آیا اور انہیں اس واقعہ کی خبر دی انہوں نے کہا تیرے ساتھ یہ (حسن سلوک اور جودوکرم) کس نے کیا؟ میں نے کہا میں نہیں جانتا۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ وہ مسجد میں سو رہا تھا اور میں نے اس سے زیادہ صاحب حسن وجمال کبھی نہیں دیکھا میرے والد نے کہا وہ امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں
 (حضرت عثمانؓ خلیفہ مظلوم ص 62)
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواب میں حضورصلیﷲعلیہ وآلہ وسلم سے ملاقات

حضرت عبداللہ بن سلامؓ فرماتے ہیں۔حضرت عثمانؓ اپنے گھر میں محصور تھے میں سلام کرنے کےلئے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں اندر گیا تو آپ نے فرمایا خوش آمدید ہو میرے بھائی کو، میں نے آج رات اس کھڑکی میں حضور کو دیکھا (حالت خواب میں) آپ صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عثمانؓ ! ان لوگو نے تمہارا محاصرہ کر رکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں پھر فرمایا انہوں نے تمہیں پیاسا رکھا ہوا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں پھر حضور نے پانی کا ایک ڈول لٹکایا جس میں سے میں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور اب بھی میں اس کی ٹھنڈک اپنے سینے اور کندھوں کے درمیان محسوس کر رہا ہوں۔ پھر آپ نے مجھ سے فرمایا اگر تم چاہو ( تو اللہ کی طرف سے) تمہاری مدد کی جائے اور اگر تم چاہو تو ہمارے پاس افطار کر لو۔ میں نے ان دونوں باتوں میں سے افطار کو اختیار کر لیا ہے چنانچہ اسی دن آپؓ کو شہید کر دیا گیا۔
(حیات صحابہ ص723 بحوالہ البدایة ج7 ص182)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جن سے فرشتے بھی حیاکرتے

حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور گھر میں بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپصلیﷲعلیہ وآلہ وسلمکے پیچھے بیٹھی ہوئی تھیں کہ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ اجازت لے کر اندر آئے۔ پھر حضرت عمرؓ اجازت لے کر اندر آئے پھر حضرت سعد بن مالک ؓ اجازت لے کر اندر آئے پھر حضرت عثمانؓ اجازت لے کر اندر آئے حضورصلیﷲعلیہ وآلہ وسلم باتیں کر رہے تھے اور حضور ایسے ہی رہے لیکن حضرت عثمانؓ کے آنے پر حضور نے اپنے گھٹنوں پر کپڑا ڈال دیا اور اپنی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا پیچھے ہٹ کر بیٹھ جاو¿ یہ حضرات حضور صلیﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ دیر بات کرکے چلے گئے تو حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا یا نبی کریم صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم میرے والد اور دوسرے صحابہ اندر آئے تو آپ صلیﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نہ تو گھٹنے پر اپنا کپڑا ٹھیک کیا اور نہ مجھے پیچھے ہونے کو کہا۔
حضور صلیﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا میں اس آدمی سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے فرشتے عثمان سے ایسے ہی حیا کرتے ہیں جیسے اللہ اور رسول صلیﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کرتے ہیں اگر وہ اندر آتے اور تم میرے پاس بیٹھی ہوتیں تو وہ نہ تو بات کر سکتے اور نہ واپس جانے تک سر اٹھا سکتے 
 (احکامات حجاب سے پہلے کا واقعہ ہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد نبوی کی کشادگی کے لئے زمین خریدنا

مسجد نبویﷺ جب ضرورت کے لئے ناکافی اور مختصر ہوگئی تو مسجد کے قریب ہی ایک قطعہ زمین تھا جس میں اس کا مالک کھجوروں کا ذخیرہ رکھتا تھا۔
سب نے اتفاق کیا کہ اس قطعہ کو خرید کر اسے مسجد میں شامل کیا جائے حضرت عثمان ؓ کو اس کا علم ہوا تو پیش قدمی کرکے 20 یا 25 ہزار درہم میں یہ قطعہ خرید لیا اور آنحضرتﷺ کو خبر کی آپ
نے خوش ہو کر فرمایا تم اس کو ہماری مسجد میں شامل کر دو (اجرہ لک) اور اس کا ثواب تم کو ملے گا۔
(حضرت عثمان ذوالنورین ص 280 بحوالہ البدایہ ج 3ص 177)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  انگوٹھی کی گمشدگی

حضرت عثمان ؓ نے اہل مدینہ کے لئے پانی پینے کا ایک کنواں کھدوایا۔ ایک دفعہ آپ اس کنویں کے سرے پر بیٹھے ہوئے اس انگوٹھی (کو جو حضورﷺ نے خطوط پر مہر ثبت کرنے کے لئے بنائی تھی بعدازاں حضرت ابوبکرصدیقؓ نے بطور مہر استعمال کیا۔ آپ کے بعد حضرت عمرفاروقؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں استعمال کیا اور اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تھی کو حرکت دے رہے تھے اور اسے اپنی انگلی میں گھما رہے تھے کہ انگوٹھی ان کے ہاتھ سے نکل کرکنویں میں گرگئی۔ لوگوں نے کنویں میں اس کو بہت تلاش کیا یہاں تک کہ اس کا پانی نکلوا دیا پھر بھی اس کا سراغ نہ مل سکا۔
بعد میں حضرت عثمان ؓ نے اعلان کیا جو بھی شخص اس انگوٹھی کو لے کر آئے تو اسے بھاری رقم دی جائے گی آپ ؓ کو اس خاتم مبارک کے گم ہونے کا بہت رنج ہوا اور اس کی تلاش میں سرگرداں رہے تلاش کے بعد بھی آپ کو وہ انگوٹھی نہ ملی اور جب آپ ہر طرح سے مایوس ہوگئے تو آپ نے اس جیسی چاندی کی انگوٹھی بنوانے کا حکم دیا چنانچہ ہوبہو ویسی ہی انگوٹھی بنائی گئی اور اس پر محمد ﷺ کندہ تھا آپؓ نے اسے اپنی انگلی میں پہن لیا جب آپ کو شہید کیا گیا تو وہ انگوٹھی بھی غائب ہوگئی اور یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کون اس انگوٹھی کو لے گیا۔
(تاریخ طبری ج 3ص 278)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلاوت قرآن کاشوق 
 

حضرت حسنؓ کہتے ہیں کہ امیرالمومنین عثمان بن عفانؓ نے فرمایا اگر ہمارے دل پاک ہوتے تو ہم اپنے رب کے کلام سے کبھی سیر نہ ہوتے اور مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میری زندگی میں کوئی دن ایسا آئے جس میں دیکھ کر قرآن نہ پڑھوں۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ دیکھ کر اتنا زیادہ قرآن پڑھا کرتے تھے کہ ان کے انتقال کے پہلے ہی ان کا قرآن شہید/پھٹ گیا (کثرت استعمال کی وجہ سے)
(حیاة الصحابہ 3 ص 321 بحوالہ الاسماءوالصفات ص 182)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باندی سے بھی پردے کا اہتمام
بُنانہ حضرت عثمانؓ کی ایک بیوی کی باندی تھی فاس کا بیان ہے کہ حضرت عثمانؓ کے غسل سے فراغت کے بعد جب میں ان کے کپڑے لیکر حاضر ہوتی تھی تو مجھ سے فرماتے میرے جسم کی طرف مت دیکھنا، یہ تمہارے لئے جائز نہیں ہے۔
(حضرت عثمانؓ ذوالنورین ص277 بحوالہ طبقات ابن سعد ج3 ص 41)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہلیہ کیلئے لباس فاخرہ خریدنا
ابن سعدؓ کی روایت ہے کہ صحابہ کرامؓ عام طور پر اپنی بیویوں کو عمدہ اور خوبصورت لباس پہناتے تھے (جن کو وسعت ہوتی تھی) حضرت عثمانؓ بھی اس کا اہتمام کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپؓ نے ایک ریشمی چادر دو سو درہم میں خریدی اور فرمایا: یہ نائلہ کیلئے ہے۔ وہ اسے اوڑھیں گی تو میں خوش ہوں گا۔
(حضرت عثمانؓ ذوالنورین ص274 بحوالہ ابن سعد ج3 ص40)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک رکعت میں قرآن پڑھنا
عبدالرحمن بن عثمانؓ کا بیان ہے ایک مرتبہ میں نے (غالباً حج کے موقع پر) مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنی شروع کی اور وہ اتنی دراز کر دی کہ یہ خیال ہوا اب اس میں مجھ سے کون سبقت لے جائے گا۔ اتنے میں اچانک ایک شخص آیا۔ اس نے میرے ٹھونگا مارا تو میں نے پروا نہیں کی۔ پھر جب اس نے دوبارہ ایسا کیا اور اب میں نے دیکھا تو یہ شخص حضرت عثمانؓ تھے۔ میں فرط ادب سے اپنی جگہ سے ہٹ گیا اور حضرت عثمانؓ وہاں کھڑے ہو گئے تو آپؓ نے ایک ہی رکعت میں قرآن پڑھ ڈالا اور واپس چلے گئے۔
(حضرت عثمانؓ ذوالنورین ص282 بحوالہ ابن سعد ج3 ص53)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبر کا خوف
حضرت عثمان غنی کے آزاد کردہ غلام حضرت ہانیؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ہو جاتی۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپؓ جنت اور دوزخ کا تذکرہ کرتے ہیں اور نہیں روتے ہیں لیکن قبر کو یاد کرکے روتے ہیں؟ فرمایا میں نے حضورﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے جو اس سہولت سے چھوٹ گیا اس کے بعد کی منزلیں سب آسان ہیں اور جو اس کے عذاب میں پھنس گیا اس کے بعد کی منزلیں اور بھی زیادہ سخت ہیں اور میں نے حضورﷺ سے یہ بھی سنا ہے کہ میں نے کوئی منظر ایسا نہیں دیکھا کہ قبرکا منظر اس سے زیادہ گھبراہٹ والا نہ ہو اور حضرت ہانیؓ نے حضرت عثمان ؓ کو ایک قبر پر یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا۔
(اے قبر والے) اگر تم اس گھاٹی سے سہولت سے چھوٹ گئے تو تم زبردست گھاٹی سے چھوٹ گئے ورنہ میرے خیال میں تمہیں آئندہ کی گھاٹیوں سے نجات نہیں مل سکے گی۔
(حیات الصحابہ 2 ص 784 بحوالہ ترمذی و ابونعیم فی الحلیتہ ج 1ص 61)
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment