Friday

Harm Ki Pasbani

حرم کی پاسبانی

 علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں لفظ ”حرم“ نہایت وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ وہ حرم سے قرآن مجید، توحید و رسالت، ملّتِ اسلام، دین اسلام اور عالم اسلام بھی مراد لیتے ہیں۔انیسویں اور بیسویں صدی میں تمام عالم اسلام تقریباً زوال کی حدوں تک پہنچا ہوا تھا۔ مسلمان آپس میں ہی دست و گریباں ہونے لگے۔ بالفاظ دیگر مسلمان خود اپنے ہاتھوں سے دیوار حرم کو کمزور کر رہے تھے یہ عمل مسلمانوں کی انتہائی کوتاہ اندیشی پر مبنی تھا۔ اقبالؒ نے کہا:
”حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے“
حرم کی عزت و حرمت کےلئے علامہ اقبالؒ کی اہم ترین نصیحت یہ ہے کہ روئے زمین کے تمام مسلمان خواہ وہ کسی ملک میں بھی ہوں اور کسی رنگ میں بھی ہوں، متحد ہو جائیں۔ ان کا اتحاد ہی ان کے استحکام کا باعث اور حرم کی پاسبانی کا ضامن ہو سکتا ہے، حضرت علامہ نے بلیغ اور بلند الفاظ میں فرمایا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کےلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
علامہ اقبالؒ کے نزدیک ملت اسلامیہ کا شیرازہ منتشر کرنے میں سب سے زیادہ خطرناک کردار نظریہ قومیت نے ادا کیا۔ جسے استعماری افلاطونوں نے بڑی حکمت عملی سے مسلمانوں کے ذہنوں میں داخل کیا اور پھر اس کے نتائج سے فائدہ اٹھایا۔ مسلمان اقوام وطن پرستی کے جذبات سے اس قدر سرشار ہو گئیں کہ انہوں نے دین کو ثانوی حیثیت دینا شروع کیا۔ دین و وطن کے اس خطرناک محاذ پر

 علامہ اقبالؒ عمر بھر نبردآزما رہے، انہوں نے کہا
بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکہ دین و وطن
اس زمانے میں کوئی حیدر کرار بھی ہے؟
علامہ اقبالؒ کا بیان:
”مجھ کو یورپین مصنفوں کی تحریروں سے ابتدا ہی سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی تھی کہ یورپ کی ملوکانہ اغراض اس امر کی متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدت دینی کو پارہ پارہ کرنے کےلئے اس سے بہتر اور کوئی حربہ نہیں کہ اسلامی ممالک میں فرنگی نظریہ وطنیت کی اشاعت کی جائے۔“
18 فروری 1938ءکوایک خط میں لکھا:
”میں نے اپنی عمر کا نصف حصہ اسلامی قومیت اور ملّت کے اسلامی نقطہ¿ نظر کی تشریح و توضیح میں گزارا ہے۔ محض اس وجہ سے کہ مجھ کو ایشیا کیلئے اور خصوصاً اسلام کےلئے فرنگی سیاست کا یہ نظریہ ایک خطرۂ عظیم محسوس ہوتا تھا۔“
اس نظریے کے نتیجے میں ملّت اسلامیہ متعدد قوموں میں تقسیم ہو گئی۔ متعدد آمر، ملوک اور شیوخ ان کے سربراہ بن گئے۔
ان اکثر سیاسی رہنماوں نے اپنی گروہی اغراض کی خاطر ملک و ملّت کی سودا بازی سے بھی دریغ نہ کیا۔ سید جمال الدین افغانی جنہیں علامہ اقبالؒ اپنے دور کا مجدد قرار دیتے ہیں، اتحاد بین المسلمین کے انتھک مبلغ تھے۔ وہ مسلمان سلاطین کو ہمیشہ وحدت ملّی کی تعلیم دیتے رہے۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک سید جمال الدین افغانی کا خاص مقصد یہ تھا کہ دنیائے اسلام کے مسلمانوں کو ملّی مفاد کےلئے بیدار کریں تاکہ وہ مسلمان سلاطین سے جن کی نظریں صرف اپنے خاندانوں کے مفاد پر جمی رہتی تھیں، نجات حاصل کریں۔
قومیت اور ملوکیت کے بعد وحدت اسلامی کو نقصان پہنچانے والوں میں استعماری دور کے پیغمبروں کا ظہور بھی ہے۔ انیسویں صدی میں ایران میں بہائیت اور برصغیر میں قادیانیت نے مسلمانوں میں انتشار کو مزید فروغ دیا۔ ختم نبوت کا عقیدہ وحدت اسلامی کا خاص ضامن ہے۔ علامہ اقبالؒ نے کہا:
”وہ اجتماعی اور سیاسی تنظیم جسے اسلام کہتے ہیں مکمل اور ابدی ہے۔ محمدصلیﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی ایسے الہام کا امکان ہی نہیں ہے جو شخص ایسے الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ اسلام سے غداری کرتا ہے۔“
اقبالؒ نے فرمایا:
پس خدا بر ما شریعت ختم کرد
بر رسول ما رسالت ختم کرد
مغرب زدہ دانشوروں کی آزاد خیالی بھی عالم اسلام میں انتشار کا باعث بنی۔ مغرب کے دانشوروں نے دین اسلام کو مسیحیت کی طرح ایک ذاتی معاملہ قرار دیا ۔ قطع نظر اس سے کہ اسلام مکمل طور پر ایک اجتماعی ضابطہ حیات ہے جو فرد اور معاشرے کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔ اس بارے میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا:
”اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے جو خود اسی کا پیدا کردہ ہے، الگ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک کو ترک کیا تو بالآخر دوسرے کا ترک کرنا بھی لازم آئے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کے لئے بھی کسی ایسے نظام سیاست پر غور کرنے کے لئے آمادہ ہو گا جو کسی ایسے وطنی یا قومی اصول پر مبنی ہو جو اسلام کے اصول اتحاد کے منافی ہو۔“
مغربی استعمار نے علاقائی، نسلی اور لسانی بنیادوں پر ملّت اسلامی کو چھوٹی چھوٹی قوموں میں تقسیم کیا پھر ان میں تمدنی برتری کا بیہودہ احساس پیدا کیا، اس کے بعد انہیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراءکر دیا۔ مشرق وسطیٰ میں بالخصوص اسی عیارانہ تدبیر کے تحت کام ہوا ہے۔
علامہ اقبالؒ نے ایشیائی ممالک کی نجات کا ضامن صرف اسلامی اصولوں کو قرار دیتے ہوئے فرمایا:
”اگر موجودہ دور میں ایشیائی ممالک تباہ حالی سے بچنا چاہتے ہیں تو صرف یہی ایک طریقہ ہو سکتا ہے کہ اسلامی نظریوں کو اپنا لیں اور نسلی امتیازات مٹا کر انسانیت کے عام مفاد کو پیش نظر رکھیں۔“
اتحاد بین المسلمین کا تصور خلافت کے وجود سے کسی نہ کسی حد تک قائم رہا لیکن خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہونے کے بعد مسلمان اقوام میں اتحاد باقی نہ رہا۔ حضرت علامہ نے فرمایا:
”موجودہ صورتحال میں ہر مسلم قوم کو اپنے مفاد پر نظر مرکوز کر دینی چاہئے اور اپنے ہی عروج و ارتقاءکو اپنا منتہائے نگاہ بنا لینا چاہئے۔ یہ خود نگہداری محض اس وقت تک کے لئے ہو جب تک کہ تمام اسلامی ممالک طاقتور ہو کر ایک زندہ جمہوری برادری تشکیل دینے کے قابل ہو جائیں۔“
علامہ اقبالؒ نے ”جمعیت اقوام“ کو کفن چوروں کی انجمن کا نام دیا۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ عالم اسلام اپنی علیحدہ جمعیت اقوام تشکیل کرے جو اپنے وسائل اور قوت عمل سے مسلمان اقوام کے مسائل حل کرے اور انہیں استعمار کی چیرہ دستی سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے۔

ﷲ ہمارا حامی و ناصر ہو۔۔۔آمین

No comments:

Post a Comment