معراج مصطفیٰ ﷺ ۔۔۔ عظیم نبی کا عظیم الشان سفر
مولانا محمد امجد خان
پروردگار نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد کو انبیاءکرام ؑپر جہاں دیگر امور میں بلند درجے سے نوازا اور انتہا تک پہنچا دیا وہیں پر معراج کے عظیم معجزے میں بھی ایک منفرد اور ممتاز مقام سے سرفراز فرمایا۔ تمام انبیاءکرام کو جتنے بھی معجزے نصیب فرمائے ان سب سے آنحضرت کا صرف یہ معجزہ معراج مبارک مقام و مرتبہ میں کہیں بڑھ کر ہے اور قرآن مجید ایک ایسا معجزہ ذی شان ہے جس کی ایک آیت کا مقام و مرتبہ تمام معجزات انبیاءو رسل سے بلند ہے۔ آخر رسول بھی ممتاز تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب و معجزات بھی ممتاز اور خاص نصیب فرمائے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد کو معجزہ معراج بھی نرالی شان والا نصیب فرمایا لفظ معراج عروج سے ہے اور عروج کے دو معانی ہیں ایک بنفس نفیس روحانی اور جسمانی طور پر حقیقتاً بلند ہونا اور دوسرا روحانی طو پر قرب خداوندی سے نوازے جانا اور یہ بھی بلندی ہے یہاں پر ایمان افروز نکتہ یہ ہے کہ حضرات انبیاءکرام ؑ کو روحانی قرب صرف نصیب ہوا ہے جبکہ آنحضرت روحانی اور جسمانی قرب دونوں سے معراج کی رات نوازے گئے۔
اس سفر کو اَسری کہتے ہیں کیونکہ اس کے معنی ہے وہ سیر جو زمین پر ہو اس کے بعد جو سفر ہوا اس کو معراج کہتے ہیں۔ سفر معراج بعض حضرات کے نزدیک اسی براق پر کروایا گیا اور بعض کے نزدیک جنت کی سیڑھی (لفٹ) کے ذریعے کروایا گیا ۔جس کی رفتار براق سے بھی تیز تھی۔ اس سفر میں حضور اتنے بلند ہوئے کہ ور فعنالک ذکرک کا وعدہ کرنے والی ذات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہر آسمان پر فرشتوں کے ذریعے دروازہ بھی کھلوایا گیا اور استقبال بھی کروایا گیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم ؑ سے دوسرے پر حضرت یحیٰ ؑاور حضرت عیسیٰ ؑ ‘ تیسرے پر حضرت یوسف ؑ ، چوتھے پر حضرت ادریس ؑ‘ پانچویں پر حضرت ہارون ؑ‘ چھٹے پر حضرت موسیٰ ؑ اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیمؑ سے ملاقات ہوئی۔
ان ملاقاتوں کی حکمتوں پر بھی محدثین نے مفصل بحث کی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑفرشتوں کے قبلہ بیت المعمور جوبیت اللہ شریف کے عین اوپر ہے کے ساتھ ٹیک لگا کر تشریف فرما تھے۔ انہوں نے بھی باقی انبیاءکرام ؑ کی طرح استقبال کیا اور تمام پیغمبروںؑ میں انہوں نے حضور کی امت کو سلام کیا اسی وجہ سے ہر مرتبہ نماز میں درود شریف اور اس میں ان کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا اے محمد ! اپنی امت کو میرا سلام کہنا اور انہیں پیغام دینا کہ جنت ایک کھلا میدان ہے اور اس کے پودے اور درخت سبحان اللہ والحمد اللہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر ہیں۔
یعنی ان کو کثرت سے پڑھنے پر جنت میں پڑھنے والے کے نام درخت لگائے جاتے ہیں۔ اسی لئے حدیث میں ہے کہ ایک بار سبحان اللہ کہنے پر جنت میں درخت لگا دیا جاتا ہے اور صلوٰة تسبیح کی فضیلت بھی اسی وجہ سے ہے کہ اس میں یہ کلمہ بکثرت یعنی تین سو بار پڑھاجاتا ہے۔ پھر آنحضرت کی حقیقی معراج شروع ہوئی یعنی اب انبیاءکرام نیچے رہ گئے اور آنحضرت سب سے بڑھ گئے۔سدرة المنہتیٰ پر پہنچ کر جبرائیل امین ؑ نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور کہا اس سے آگے میری منزل نہیں ہے۔ اس سے آگے فقط آپ کا مقام ہے۔ میں آگے بڑھوں گا تو خدا کے انوارات و تجلیات کی اتنی بارش ہو رہی ہے کہ جل جاﺅںگا۔
آقا تیری معراج کہ تو لوح و قلم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
یہاں پر آپ نے جبرائیل امین کو اصلی شکل میں دیکھا کہ چھ سو پر ہیں جنہوں نے تمام آسمانوں کو گھیر رکھا ہے یہاں پر جنت بھی دیکھی۔ حضرت عمرؓ کا محل بھی دیکھا اور فرعون کی باندی ماشطہ کے گھر کی خوشبو بھی ملاحظہ کی اور دوزخ کے نہ دیکھنے والے مناظر بھی دیکھے۔
پھر آپ تن تنہا بلندی کی طرف تشریف لے گئے جہاں لکھی جانے والی تقدیر کا احوال بھی سنا ، یاد رہے تقدیر جو پہلے ہی لکھی جا چکی ہے یہ وہ امور ہیں جو ہر سال فرشتوں کے سپرد کئے جاتے ہیں۔ پھر آپ اس مقام پر پہنچے جہاں اللہ تعالیٰ نے براہ راست خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ اے میرے محبوب میرے اور قریب ہو جائیے تین بار اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ میرے محبوب میرے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قریب ہو جائیے۔ حضور فرماتے ہیں کہ میں اتنا قریب ہوا کہ میں نے انپے رب کو اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھا۔ سبحان اللہ اس منظر کو نہ قلم تحریر کر سکتے ہیں اور نہ دماغ رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب کو دیکھ کر سجدہ کیا۔ اس سجدہ میں کیا تعریف کی ہو گی یہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور اس سجدے کی لذت کیا ہو گی یہ حضور جانتے ہیں۔ سجدے سے جب آنحضرت نے سر اٹھایا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد! کیا مانگتے ہو تو حضور نے فرمایا مجھے اپنے ہاں میرا مقام بتا دیجئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے پیارے تو میرا حبیب ہے اور حبیب بھی ایسا کہ مجھے بھی تجھ سے محبت پر ناز ہے۔ یہاں پر حضور نے تین تحفے بار گاہ صمدیت میں پیش کئے۔ التحیات للہ‘ یا اللہ میری ساری قوی عبادتیں‘ و الصلوت ‘ بدنی عبادتیں‘ والطیبات مالی عبادتیں تیرے لئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا السلام علیک ایھاالنبی و رحمتہ اللہ و برکاتہُ ‘ میری ساری رحمتیں اور برکات تیرے لئے ہیں۔ حضور نے جب دیکھا دریا رحمت جوش میں ہے تو فوراً عرض کی کہ میں تنہا نہیں اسلام علینا اس رحمت میں گناہ گار بھی میرے ساتھ ہیں علیٰ عباد اللہ الصالحین اور نیکوکار بھی میرے ساتھ ہیں۔ یعنی فقط مجھ پر ہی رحمت نہ ہو میرے ساتھ میری امت کو بھی نوازا جائے۔
معراج کی رات تین تحفے امت کے لئے دئیے گئے پانچ نمازیں جو پہلے پچاس تھیں تحفیف کروا کر پانچ رہ گئیں اور ثواب پچاس کا ہی مقرر کیا گیا۔ دوسرا سورة بقرہ کی آخری دو آیات امن الرسول سے آخر تک سوتے وقت پڑھنے سے جان‘ مال‘ ایمان‘ عزت آبرو کی حفاظت ہو گی۔ تیسرا تحفہ یہ ملا کہ اے میرے محبوب آپ کی امت میں جو مجھ سے شرک نہ کرے گا میں رب اس کو معاف فرما دوں گا۔
سفر معراج جہاں حضور کے لئے عظمتیں سمیٹے ہوئے ہے وہیں پر امت کے لئے بیش بہا رحمت کی خوشخبری لئے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ سدا ہمارے نبی پر درود و سلام نازل فرمائے اور اپنے فضل سے ہمارا خاتمہ ایمان کا مل پر فرما کر ہمیں صاحب معراج نبی کی شفاعت و رحمت سے بار بار مشرف فرمائے۔ آمین
ﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺ
صلی علیہ وآلہ وسلم
مولانا محمد امجد خان
پروردگار نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد کو انبیاءکرام ؑپر جہاں دیگر امور میں بلند درجے سے نوازا اور انتہا تک پہنچا دیا وہیں پر معراج کے عظیم معجزے میں بھی ایک منفرد اور ممتاز مقام سے سرفراز فرمایا۔ تمام انبیاءکرام کو جتنے بھی معجزے نصیب فرمائے ان سب سے آنحضرت کا صرف یہ معجزہ معراج مبارک مقام و مرتبہ میں کہیں بڑھ کر ہے اور قرآن مجید ایک ایسا معجزہ ذی شان ہے جس کی ایک آیت کا مقام و مرتبہ تمام معجزات انبیاءو رسل سے بلند ہے۔ آخر رسول بھی ممتاز تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب و معجزات بھی ممتاز اور خاص نصیب فرمائے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد کو معجزہ معراج بھی نرالی شان والا نصیب فرمایا لفظ معراج عروج سے ہے اور عروج کے دو معانی ہیں ایک بنفس نفیس روحانی اور جسمانی طور پر حقیقتاً بلند ہونا اور دوسرا روحانی طو پر قرب خداوندی سے نوازے جانا اور یہ بھی بلندی ہے یہاں پر ایمان افروز نکتہ یہ ہے کہ حضرات انبیاءکرام ؑ کو روحانی قرب صرف نصیب ہوا ہے جبکہ آنحضرت روحانی اور جسمانی قرب دونوں سے معراج کی رات نوازے گئے۔
اس سفر کو اَسری کہتے ہیں کیونکہ اس کے معنی ہے وہ سیر جو زمین پر ہو اس کے بعد جو سفر ہوا اس کو معراج کہتے ہیں۔ سفر معراج بعض حضرات کے نزدیک اسی براق پر کروایا گیا اور بعض کے نزدیک جنت کی سیڑھی (لفٹ) کے ذریعے کروایا گیا ۔جس کی رفتار براق سے بھی تیز تھی۔ اس سفر میں حضور اتنے بلند ہوئے کہ ور فعنالک ذکرک کا وعدہ کرنے والی ذات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہر آسمان پر فرشتوں کے ذریعے دروازہ بھی کھلوایا گیا اور استقبال بھی کروایا گیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم ؑ سے دوسرے پر حضرت یحیٰ ؑاور حضرت عیسیٰ ؑ ‘ تیسرے پر حضرت یوسف ؑ ، چوتھے پر حضرت ادریس ؑ‘ پانچویں پر حضرت ہارون ؑ‘ چھٹے پر حضرت موسیٰ ؑ اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیمؑ سے ملاقات ہوئی۔
ان ملاقاتوں کی حکمتوں پر بھی محدثین نے مفصل بحث کی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑفرشتوں کے قبلہ بیت المعمور جوبیت اللہ شریف کے عین اوپر ہے کے ساتھ ٹیک لگا کر تشریف فرما تھے۔ انہوں نے بھی باقی انبیاءکرام ؑ کی طرح استقبال کیا اور تمام پیغمبروںؑ میں انہوں نے حضور کی امت کو سلام کیا اسی وجہ سے ہر مرتبہ نماز میں درود شریف اور اس میں ان کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا اے محمد ! اپنی امت کو میرا سلام کہنا اور انہیں پیغام دینا کہ جنت ایک کھلا میدان ہے اور اس کے پودے اور درخت سبحان اللہ والحمد اللہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر ہیں۔
یعنی ان کو کثرت سے پڑھنے پر جنت میں پڑھنے والے کے نام درخت لگائے جاتے ہیں۔ اسی لئے حدیث میں ہے کہ ایک بار سبحان اللہ کہنے پر جنت میں درخت لگا دیا جاتا ہے اور صلوٰة تسبیح کی فضیلت بھی اسی وجہ سے ہے کہ اس میں یہ کلمہ بکثرت یعنی تین سو بار پڑھاجاتا ہے۔ پھر آنحضرت کی حقیقی معراج شروع ہوئی یعنی اب انبیاءکرام نیچے رہ گئے اور آنحضرت سب سے بڑھ گئے۔سدرة المنہتیٰ پر پہنچ کر جبرائیل امین ؑ نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور کہا اس سے آگے میری منزل نہیں ہے۔ اس سے آگے فقط آپ کا مقام ہے۔ میں آگے بڑھوں گا تو خدا کے انوارات و تجلیات کی اتنی بارش ہو رہی ہے کہ جل جاﺅںگا۔
آقا تیری معراج کہ تو لوح و قلم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
یہاں پر آپ نے جبرائیل امین کو اصلی شکل میں دیکھا کہ چھ سو پر ہیں جنہوں نے تمام آسمانوں کو گھیر رکھا ہے یہاں پر جنت بھی دیکھی۔ حضرت عمرؓ کا محل بھی دیکھا اور فرعون کی باندی ماشطہ کے گھر کی خوشبو بھی ملاحظہ کی اور دوزخ کے نہ دیکھنے والے مناظر بھی دیکھے۔
پھر آپ تن تنہا بلندی کی طرف تشریف لے گئے جہاں لکھی جانے والی تقدیر کا احوال بھی سنا ، یاد رہے تقدیر جو پہلے ہی لکھی جا چکی ہے یہ وہ امور ہیں جو ہر سال فرشتوں کے سپرد کئے جاتے ہیں۔ پھر آپ اس مقام پر پہنچے جہاں اللہ تعالیٰ نے براہ راست خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ اے میرے محبوب میرے اور قریب ہو جائیے تین بار اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ میرے محبوب میرے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قریب ہو جائیے۔ حضور فرماتے ہیں کہ میں اتنا قریب ہوا کہ میں نے انپے رب کو اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھا۔ سبحان اللہ اس منظر کو نہ قلم تحریر کر سکتے ہیں اور نہ دماغ رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب کو دیکھ کر سجدہ کیا۔ اس سجدہ میں کیا تعریف کی ہو گی یہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور اس سجدے کی لذت کیا ہو گی یہ حضور جانتے ہیں۔ سجدے سے جب آنحضرت نے سر اٹھایا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد! کیا مانگتے ہو تو حضور نے فرمایا مجھے اپنے ہاں میرا مقام بتا دیجئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے پیارے تو میرا حبیب ہے اور حبیب بھی ایسا کہ مجھے بھی تجھ سے محبت پر ناز ہے۔ یہاں پر حضور نے تین تحفے بار گاہ صمدیت میں پیش کئے۔ التحیات للہ‘ یا اللہ میری ساری قوی عبادتیں‘ و الصلوت ‘ بدنی عبادتیں‘ والطیبات مالی عبادتیں تیرے لئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا السلام علیک ایھاالنبی و رحمتہ اللہ و برکاتہُ ‘ میری ساری رحمتیں اور برکات تیرے لئے ہیں۔ حضور نے جب دیکھا دریا رحمت جوش میں ہے تو فوراً عرض کی کہ میں تنہا نہیں اسلام علینا اس رحمت میں گناہ گار بھی میرے ساتھ ہیں علیٰ عباد اللہ الصالحین اور نیکوکار بھی میرے ساتھ ہیں۔ یعنی فقط مجھ پر ہی رحمت نہ ہو میرے ساتھ میری امت کو بھی نوازا جائے۔
معراج کی رات تین تحفے امت کے لئے دئیے گئے پانچ نمازیں جو پہلے پچاس تھیں تحفیف کروا کر پانچ رہ گئیں اور ثواب پچاس کا ہی مقرر کیا گیا۔ دوسرا سورة بقرہ کی آخری دو آیات امن الرسول سے آخر تک سوتے وقت پڑھنے سے جان‘ مال‘ ایمان‘ عزت آبرو کی حفاظت ہو گی۔ تیسرا تحفہ یہ ملا کہ اے میرے محبوب آپ کی امت میں جو مجھ سے شرک نہ کرے گا میں رب اس کو معاف فرما دوں گا۔
سفر معراج جہاں حضور کے لئے عظمتیں سمیٹے ہوئے ہے وہیں پر امت کے لئے بیش بہا رحمت کی خوشخبری لئے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ سدا ہمارے نبی پر درود و سلام نازل فرمائے اور اپنے فضل سے ہمارا خاتمہ ایمان کا مل پر فرما کر ہمیں صاحب معراج نبی کی شفاعت و رحمت سے بار بار مشرف فرمائے۔ آمین
ﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺ
صلی علیہ وآلہ وسلم
Source: www.nawaiwaqt.com.pk
No comments:
Post a Comment