معراج النبی ﷺاور مشاہدات
علامہ منیر احمد یوسفی
اسریٰ کے معنی رات کو لے جانے یا چلانے کے ہیں چونکہ نبی کریم کا یہ حیرت انگیز معجزانہ سفر رات کو ہوا تھا اِس لئے اِس کو اسراءکہتے ہیں اور قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اِس کو اِسی لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سُبحَانَ الَّذِی اَسرٰی بِعَبدِہ لَیلًا ”یعنی پاک ہے وہ ذات جو اپنے (محبوب) بندے (حضرت محمد مصطفی ﷺ) کو لے گیا۔“
معراج عروج سے نکلا ہے جس کے معنی اُوپر چڑھنا کے ہیں۔ چونکہ اَحادیث مبارکہ میں آپ سے’ عُرِجَ لِی مجھ کو اوپر چڑھایا گیا ‘ مروی ہے۔ اِس لئے اِس کا نام معراج ہے۔
آیتِ مبارکہ میں تین کلمات قابلِ توجہ ہیں (1) اَسرٰی (2) عَبدِہ اور (3) لَیلًا۔ اَسرٰی رات کو لے جانا اور لَیلًا سے مراد رات ہی کو ہے۔ لَیلًا کا لفظ دو زبر کی وجہ رات کی قلت کو بیان کرتا ہے یعنی رات کے تھوڑے حصّے میں یعنی راتوں رات۔ اِس سیر کے کرانے کا دعویٰ ربِّ ذوالجلال والاکرام کا ہے۔ چونکہ سفر محیر العقول ہے اِس لئے رَبِّ کائنات نے پہلے اپنی تسبیح بیان فرما دی تاکہ پڑھنے‘ سُننے والے کے دِل میں یہ بات اُتر جائے کہ جس ذاتِ برحق نے سیر کرائی ہے۔ وہ ہر قسم کی کمزوری‘ خامی اور نقص سے پاک ہے۔ اُس کے لئے اَیسی سیر راتوں رات کرا دینا ناممکن اور مشکل نہیں۔ صرف مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف جانے آنے کا سفر ڈیڑھ دو ماہ کا تھا۔ لیکن رات کے کچھ حصّے کا دعویٰ اور دعویٰ بھی قادرِ مطلق ربّ ذوالجلال والاکرام کا ہے ۔ پھر یہ سفر روح کا نہیں یا خواب کا واقعہ نہیں بلکہ روح مع الجسد اور بیداری کا واقعہ ہے۔ بیان شدہ تینوں کلمات میں اَسرٰی بِعَبدِہ اور لَیلًا روح مع الجسد بیداری میں سیر کی تائید قرآنِ حکیم سے ہی ہو جاتی ہے۔ اِس کے لئے سورة الدخان کی آیت مبارک نمبر 23‘ سورة طٰہٰ کی آیت نمبر 77‘ سورة الشعراءکی آیت نمبر 52‘ سورة ھود کی آیت نمبر 81 اور سورة الحجر کی آیت مبارک نمبر 65 دیکھی جا سکتی ہے۔
اِن آیاتِ مبارکہ میں حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت لوطؑ کا واقعہ بیان ہے۔ سورة الدخان میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ سے اِرشاد فرماتا ہے فَاَسرِ بِعِبَادِی لَیلًا اِنَّکُم مَّتَّبَعُونَo ”کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چلے جائیں بے شک آپ کا پیچھا کیا جائے گا۔“ اِسی طرح سورة الشعراءکی آیت 52 میں ہے وَاَوحَینَا اِلٰی مُوسٰی اَن اَسرِ بِعِبَادِی اِنَّکُم مُّتَّبَعُونَo ”اور ہم نے موسیٰ ؑ کو وحی فرمائی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چلے جائیں بے شک آپ کا پیچھا کیا جائے گا۔“ حضرت لوطؑ کو سورہ ھود کی آیت نمبر 81 اور سورة الحجر کی آیت 65 میں فرمایا گیا فَاَسرِ بِاَھلِکَ بِقِطعٍ مِّنَ اللَّیلِ ”تو اپنے گھر والوں کو راتوں رات لے کر چلے جائیے۔“
اِن آیاتِ بینات اور واقعات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب اَسرٰی‘ بِعَبدِہ‘ لَیلًا یا اسری اھلک اور لیل کا ذکر آئے تو واقعہ جاگتے‘ بیداری اور روح مع الجسد کا ہوتا ہے۔
اگر معراج شریف کا واقعہ روح کی سیر یا خواب کا واقعہ ہوتا یعنی رسولِ کریم فرماتے کہ اللہ (تعالیٰ) نے میری روح کو سیر کرائی ہے یا مجھے خواب میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف اور پھر آسمانوں کی سیر کرائی اور رات کے کچھ حصہ میں سب کچھ رونما ہوا تو کوئی شخص بھی اِنکار نہ کرتا۔ دعویٰ بیداری کی حالت میں سیر کرانے کا ہے۔ اِس لئے عظمت رَبِّ ذوالجلال والاکرام اور مقام مصطفی کے منکروں نے جھگڑا کھڑا کر دیا۔ لیکن قدرت کا کمال دیکھئے کہ اگر ایک طرف منکرین‘ اِنکار پر مصر ہیں تو دوسری طرف نبی کریم کے محسن حضرت صدیق اکبرؓ واقعہ کی تصدیق کر رہے اور فرما رہے کہ میں تو اِس سے بھی بڑی باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور اللہ کی طرف سے لقب ”صدیق“ حاصل کر رہے ہیں۔
مقام غور ہے‘ رَبِّ ذوالجلال والاکرام نے اپنی کتاب لاریب کی سورة النمل میں حضرت سلیمانؑ کے ایک اُمّتی کا واقعہ بیان فرمایا ہے جس نے آنکھ جھپکنے سے پہلے 3000 (تین ہزار میل) یعنی چار ہزار پانچ کلو میٹر کا سفر طے کر کے ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں حاضر کر دیا۔
جب خالقِ کائنات کے عظیم بندوں کا یہ کمال ہے جو ربِّ کی دی ہوئی طاقت اور فضل سے اِتنا لمبا سفر آنکھ جھپکنے میں طے کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو تمام اور لامحدود طاقتوں کا مالک ہے اُس نے رات کے کچھ حصّے میں اِتنا لمبا سفر طے کروا دیا کہ عقل اِنسانی حیرت میں مبتلا ہے۔ رَبِّ ذوالجلال نے آنکھوں سے سب پردے ہٹا دئیے‘ دنیاوی قوانین منسوخ فرما دئیے مکان و زمان کی قیود کی تمام فرضی بیڑیاں کاٹ دیں اور آسمان و زمین کے مخفی مناظر بے حجابانہ آپ کے سامنے آ جاتے ہیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم نے فرمایا کہ معراج کی رات جب میں (حضرت) موسیٰ ؑ کی قبر (منور) سے گزرا تو میں نے (حضرت) موسیٰ ؑ کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا
آپ نے اِس سفر معراج میں کیا کچھ ملاحظہ فرمایا چند واقعات بطور عبرت و درس قارئین کرام کی نذر کئے جاتے ہیں۔
زبانیں اور ہونٹ کاٹنے والے :
حضرت ابوہریرہ اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی¿ کریم نے ایک جماعت کو ملاحظہ فرمایا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں (اور عجیب بات تو یہ ہے کہ) اُدھر کٹ رہے ہیں پھر اُسی وقت دوبارہ صحیح ہو جاتے ہیں پھر کٹتے ہیں پھر صحیح ہو جاتے ہیں۔ اِسی طرح برابر یہ سلسلہ جاری ہے۔ پوچھا یہ کون لوگ ہیں جن کی زبانیں اور ہونٹ کاٹے جا رہے ہیں؟ عرض کیا گیا یہ وہ فتنہ پرور واعظین، مدرسین اور مقررین ہیں ( جو کہتے کچھ تھے کرتے کچھ تھے)۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا میں نے معراج کی رات لوگوں کو دیکھا کہ آگ کی قینچیوں سے اپنے ہونٹ کاٹ رہے تھے۔ میں نے حضرت جبرائیلؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ اُنہوں نے عرض کیا آپ کی اُمّت کے مقررین ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے تھے اور اپنے آپ کو بھلا دیتے تھے اور وہ کتاب پڑھتے تھے کیا اُن کو عقل نہیں۔
سود خوروں کا اَنجام:
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں ‘ رسول کریم نے فرمایا کہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھڑوں جیسے ہیں۔ جب وہ اُٹھنا چاہتے ہیں تو گر پڑتے ہیں اور مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ قیامت قائم نہ ہو۔ یہ لوگ فرعونی جانوروں سے روندے جاتے ہیں اور بارگاہِ رب میں آہ و زاری کر رہے ہیں۔ میں نے (حضرت) جبرائیلؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ اُنہوں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ یہ سود خور لوگ ہیں اور سود خور اُن لوگوں کی طرح ہی کھڑے ہوں گے جنہیں شیطان نے پاگل بنا رکھا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہم معراج کی رات اُس قوم پر پہنچے جس کے پیٹ کوٹھڑیوں کی طرح تھے جن میں سانپ تھے جو پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے۔ نبی¿ کریم فرماتے ہیں ہم نے (حضرت جبرائیلؑ سے) فرمایا یہ لوگ کون ہیں؟ (حضرت جبرائیلؑ ؑنے) عرض کیا یہ سود خور ہیں۔
اُلٹی لٹکی ہوئی عورتیں:
نبی اکرم فرماتے ہیں کہ کچھ دُور چلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ عورتیں سینوں سے بندھی اُلٹی لٹکی ہوئی ہیں‘ ہائے وائے کر رہی ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون عورتیں ہیں؟ تو بتایا گیا یہ بدکار عورتیں ہیں (اور اپنی اَولاد کو قتل کرتی تھیں)۔
غیبت کرنے والے:
پیارے کریم آقا فرماتے ہیں‘ میں نے کچھ لوگ دیکھے جن کے پہلوﺅں سے گوشت کاٹ کاٹ کر فرشتے اُنہیں کھلا رہے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ جس طرح دُنیا میں تم نے اپنے (مُردہ) بھائیوں کا گوشت کھایا اِسی طرح اَب یہ گوشت بھی کھاﺅ۔ میں نے پوچھا! اے جبرائیل ؑیہ کون لوگ ہیں؟ (جو اپنا ہی گوشت کھانے پر مجبور کئے جا رہے ہیں) عرض کیا یا رسول اللہ یہ عیب جو اور آوازیں کسنے والے لوگ ہیں۔
آبرو ریزی کرنے والے:
حضرت انسؓ سے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم نے فرمایا جب مجھے میرے اللہ کی طرف عروج دیا گیا تو میں ایک قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن نحاس یعنی تانبے کے تھے وہ اُن ناخنوں سے اپنے سینوں اور چہروں کو خراش رہے تھے۔ میں نے پوچھا! اے جبرائیلؑ یہ کون لوگ ہیں؟ (حضرت) جبرائیلؑ نے عرض کیا‘ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی آبرو ریزی کرنے اور غیبت کے در پے رہتے تھے۔
یتیم کا مال کھانے والے:
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ حضور نے فرمایا: میں نے کچھ قومیں دیکھیں جن کے ہونٹ مثل اُونٹ کے ہیں اور اُن کے منہ کھولے جاتے ہیں اور بدبودار گوشت اُن کے منہ میں ڈالا جاتا ہے اور پاخانے کے راستے سے نکل جاتا ہے وہ چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ میں نے سُنا وہ اللہ سے چیخ کر فریاد کرتے ہیں۔ حضرت جبرائیلؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے تھے (اور اپنے مال سے صدقہ نہ دیتے تھے) اب یہ آگ کھاتے ہیں اور عنقریب دوزخ میں پہنچیں گے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا شب معراج میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا اُن کے ہونٹ اُونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے۔ بالائی لب سکڑا ہوا دونوں نتھنوں پر تھا اور نچلا ہونٹ سینہ پر لٹکا ہوا۔ جہنم کے کارندے اُن کے منہ میں دوزخ کے اَنگارے اور پتھر بھر رہے تھے (حضور فرماتے ہیں) میں نے پوچھا‘ اے جبرائیلؑ یہ کون لوگ ہیں؟ (حضرت) جبرائیلؑ نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال بے جا طور پر کھاتے تھے۔ (مظہری جلد 2 ص 21)
بے نمازی کا حشر:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ حضور کا گزر ایک اَیسی قوم پر ہوا۔ جن کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے تھے۔ بار بار کچلے جاتے پھر صحیح ہو جاتے تھے۔ یہ عمل اِسی طرح بار بار ہو رہا تھا سر کچلے جاتے تھے‘ ٹھیک ہو جاتے تھے۔ ایک پَل کے لئے بھی اُنہیں مہلت نہ دی جاتی تھی۔ سرکار کائنات فرماتے ہیں ،میں نے حضرت جبرائیلؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرائیلؑ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔
زکوة نہ دینے والے :
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کریم فرماتے ہیں کہ میں نے کچھ لوگ دیکھے جن کے آگے پیچھے پرانے کپڑے لٹک رہے ہیں اور اُونٹوں اور جنگلی جانوروں کی طرح کانٹوں والے جہنمی درخت کھا رہے ہیں۔ جہنم کے پتھر اور اَنگارے نگل رہے ہیں۔ میں نے جبرائیلؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ تو حضرت جبرائیلؑ نے عرض کیا یارسول اللہ یہ لوگ اپنے مال کی زکوٰة نہیں دیتے تھے۔ اللہ نے اِن پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔
پتھرکے سوراخ سے بیل کا نکلنا:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں‘ حبیب کبریا نے دیکھا کہ ایک بہت بھاری بھر کم قوی ہیکل بیل ایک پتھر کے چھوٹے سے سوراخ سے نکل رہا ہے‘ جب باہر آ جاتا ہے پھر اُسی سوراخ میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے مگر ناکام رہتا ہے۔ پوچھا اے جبرائیلؑ یہ کیا ہے؟ عرض کیا یا رسول اللہ! یہ اُس شخص کی مثال ہے جو منہ سے بڑی بات نکالتا تھا پھر خود ہی نادم ہو جاتا تھا اور چاہتا تھا کہ میری بات واپس لوٹ آئے لیکن اَیسا نہیں ہوتا۔
اَمانتوں کا بوجھ:
نبی مکرم کا ایک شخص پر گزر ہوا۔ اُس نے بہت بڑا گٹھا جمع کیا ہوا تھا مگر اُس کو اُٹھا نہیں سکتا تھا پھر بھی اور اِضافہ کر رہا تھا۔ پوچھا اے جبرائیلؑ یہ کیا ہے؟ عرض کیا آپ کی اُمّت سے وہ شخص ہے جس کے پاس لوگوں کی اَمانتیں ہیں جن کو وہ اَدا نہیں کر سکتا۔ مگر اِس کے باوجود اَمانتیں لے رہا ہے اور اپنے اُوپر حقوق (کا بوجھ) چڑھا اور بڑھا رہا ہے۔
راستے کی لکڑی:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم نے فرمایا۔ میں نے دورانِ سفرِ معراج ایک لکڑی کو دیکھا کہ ہر گزرنے والے کے کپڑے پھاڑ دیتی ہے اور ہر چیز کو زخمی کر دیتی ہے۔ پوچھا یہ کیا ہے؟ کہا گیا یہ آپ نے اُن کی مثال دیکھی ہے جو راستے روک کر بیٹھتے ہیں پھر اِس آیتِ مبارک کو پڑھا: وَلَا تَق±عُدُو±ا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُو±عَدُو±نَ۔۔۔۔ (الاعراف: 86) ”اور ہر راستہ میں یوں نہ بیٹھو کہ ڈراﺅ۔“
علاوہ ازیں بڑے حسین منظر بھی دیکھے جنت اور دوزخ کو بھی ملاحظہ فرمایا۔
کھیتی والی قوم :
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں‘ سیدالانبیائ نے فرمایا میں نے ایک قوم کو دیکھا جو ایک روز کھیتی بوتی ہے اور دوسرے دن کھیتی کاٹتی ہے جونہی کاٹ کر فارغ ہوتی ہے تونئی کھیتی بڑھ جاتی ہے۔ حضرت جبرائیلؑ سے نبی کریم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کیا یا حبیب اللہ یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں جن کی نیکیاں ختم ہی نہیں ہوتیں۔ سات سات سو گنا تک بڑھتی ہیں اور جو خرچ کریں اُس کا بدلہ پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہترین رازق ہے۔
فرعون کی لڑکی کی مشاطہ کا واقعہ :
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضور فرماتے ہیں ایک مقام سے مجھے نہایت ہی اعلیٰ خوشبو کی مہک آنے لگی۔ میں نے کہا یہ کیسی خوشبو ہے؟ جواب ملا کہ فرعون کی بیٹی کی کنگھی کرنے والی (خادمہ) اور اُس کی اَولاد (کے محل) کی ہے‘ عرض کیا‘ اُس کے ہاتھ سے کنگھی گری تو اُس نے کہا بسم اللہ۔ فرعون کی بیٹی نے کہا اللہ تو میرا باپ ہے۔ اُس (خادمہ) نے جواب دیا کہ میرا اور تیرا اور تیرے باپ کا پروردگار اللہ ہے۔ فرعون کی بیٹی نے کہا کیا میرے باپ کے علاوہ تیرا کوئی اور ربّ ہے۔ اُس نے کہا میرا اور تیرا اور تیرے باپ کا ربّ ہے۔ اُس نے اپنے باپ کو ساری بات سُنائی۔ فرعون نے اُس (خادمہ) کو بلوایا اور کہا کیا تم میرے سوا کسی اور کو ربّ مانتی ہو۔ کہا ہاں میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے۔ فرعون نے اُسی وقت حکم دیا کہ تانبے کی گائے کو آگ میں تپایا جائے‘ جب وہ بالکل آگ جیسی ہو جائے تو پھر اِسے اور اِس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اُس میں ڈال دیا جائے۔ اُس مومنہ عورت نے فرعون سے کہا میری ایک درخواست ہے اُس نے کہا کیا ہے؟ اُس نے کہا میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک جگہ ڈال دینا۔ فرعون نے کہا اَچھا تیرے کچھ حقوق ہمارے ذمہ ہیں اِس لئے یہ منظور ہے۔ بعد ازیں فرعون نے حکم دیا کہ ایک ایک کر کے اِس کے بچوں کو آگ کی طرح تپتی ہوئی گائے میں ڈال دو۔ جب دُودھ پیتے بچے کی باری آئی (فرعون کے سپاہیوں نے جب اُس بچے کو چھینا) تو وہ گھبرائی تو اللہ تعالیٰ نے دُودھ پیتے بچے کو گویائی عطا فرمائی۔ اُس نے (اپنی ماں سے) کہا امی جان اَفسوس نہ کریں اور نہ ہی پس و پیش کریں آپ حق پر ہیں۔ وہ لوگ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں جو روپے پیسے کی خاطر بے دین مشرک اور کافر ہو جاتے ہیں۔
آواز نعالِ حضرت بلالؓ :
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے‘ اِس کو حضرت اِمام احمد بن حنبلؒ نے روایت کیا کہ سرکارِ کائنات نے فرمایا جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں (حضرت) بلالؓ کے پاﺅں کی آواز کو سُنا۔ (حضرت) جبرائیلؑ سے پوچھا تو اُنہوں نے عرض کیا یہ آپ کے مو¿ذن (حضرت) بلالؓ ہیں۔ جب رسولِ کریم واپس تشریف لائے تو فرمایا کہ فلاح پائی (حضرت) بلالؓ نے۔ اور حضرت بلالؓ سے پوچھا اے بلالؓ ہم نے جنت میں تیرے پیروں کی چاپوں کی آواز سُنی ہے توُ کیا عمل کرتا ہے؟ عرض کیا‘ یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں مجھے تو کوئی بات معلوم نہیں۔ سوائے اِس کے کہ جب بھی میں نے وضو کیا تو دو رکعت نماز تحیتہ الوضو پڑھی (سوائے مکروہ اوقات کے)۔
جنت کی حسین وادی:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آقا ایک وادی میں پہنچے جہاں نہایت نفیس‘ معطر‘ خوشگوار ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور نہایت راحت و سکون کی مبارک آوازیں آ رہی تھیں آپ نے سُن کر فرمایا جبرائیلؑ یہ کیسی خوشگوار‘ معطر‘ مبارک‘ راحت و سکون والی آوازیں ہیں۔ عرض کیا اے محبوب کائنات یہ جنت کی آوازیں ہیں‘ وہ کہہ رہی ہیں کہ اے بار ی تعالیٰ میرے ساتھ تو نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا فرما۔ میرے بالا خانے میں موتی‘ مونگے‘ سونا‘ چاندی‘ جام‘ کٹورے‘ شہد‘ پانی‘ دودھ‘ شراب طہور وغیرہ وغیرہ نعمتیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ اسے ربّ کائنات کی طرف سے جواب ملا کہ ہر ایک وہ مسلمان جو مجھے اور میرے رسولوں ؑ کو مانتا ہے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا اور نہ ہی میرے برابر کسی کو سمجھتا ہے وہ سب تجھ میں داخل کئے جائیں گے۔
پھر فرمایا ، اے جنت سُن جس کے دل میں میرا خوف ہے وہ ہر خوف و خطر سے محفوظ ہے۔ مجھ سے سوال کرنے والا محروم نہیں رہتا۔ مجھے قرض دینے والا بدلہ پاتا ہے جو میرے اوپر بھروسہ کرتا ہے اسے خوب عطا فرماتا ہوں۔ کفالت کرتا ہوں ‘ میں سچا معبود واحد ہوں میرے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں۔ میرے وعدے غلط نہیں ہوا کرتے۔ مومن نجات یافتہ ہے (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) میں بابرکت اور سب سے بہتر خالق ہوں۔یہ سُن کر جنت نے کہا بس میں خوش ہوں۔
دوزخ کی خوفناک وادی :
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ کہ سیّد کونین نے ایک اور وادی دیکھی جہاں سے نہایت بھیانک اور خوفناک آوازیں آ رہی تھیں۔ اور سخت بدبو آ رہی تھی۔ آپ نے اس کے بارے میں (حضرت) جبرائیلؑ سے پوچھا اُنہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ جہنم کی آواز ہے جو یہ کہہ رہی ہے مجھے وہ دے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ میرے طوق و زنجیریں‘ میرے شعلے‘ تھوہر لہو اور پیپ‘ میرے عذاب اور سزا کے سامان بہت وافر ہو گئے ہیں۔ میرا گہراﺅ بہت زیادہ ہے میری آگ بہت تیز ہے۔ مجھے وہ عنایت فرما جس کا وعدہ مجھ سے ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہر مشرک و کافر‘ خبیث‘ منکر‘ بے اِیمان مرد عورت میرے لئے ہے۔ یہ سن کر جہنم نے اپنی رضامندی ظاہر کی۔
اگر آپ جواب عنایت فرماتے تو!
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ابھی میں براق پر سوار ہو کر چلا ہی تھا تو مجھے کسی پکارنے والے نے دائیں طرف سے پکارا: یا محمد انظرنی اسلک یا محمد انظرنی اسلک یا محمد انظرنی اسلک (تین مرتبہ یہ کہا اے محمد مصطفی میری طرف دیکھئے میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں)۔ آپ فرماتے ہیں‘ نہ میں نے جواب دیا نہ ہی میں ٹھہرا۔ پھر جب تھوڑا آگے بڑھا تو بائیں طرف سے کسی پکارنے والے نے اِسی طرح پکارا: ”اے محمد میری طرف دیکھئے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔“ سرکار کائنات فرماتے ہیں نہ میں نے اُس کی طرف دیکھا اور نہ میں ٹھہرا۔ پھر کچھ آگے گیا تو ایک عورت دُنیا بھر کی زینت کئے ہوئے بازو کھولے کھڑی ہے۔ اُس نے مجھے اِسی طرح آواز دی: یا محمد انظرنی اسلکلیکن میں نے نہ تو اس کی طرف توجہ فرمائی اور نہ ہی وہاں ٹھہرا۔ جب بیت المقدس پہنچے تو حضرت جبرائیلؑ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ! آپ متفکر کیوں ہیں؟ فرمایا راستے والے واقعات سے۔ عرض کیا‘ یا رسول اللہ پہلا شخص تو یہودی تھا اگر آپ اُس کا جواب فرما دیتے تو آپ کی اُمّت یہودی ہو جاتی۔ دوسرا نصرانیوں کا دعوت دینے والا تھا۔ اگر آپ وہاں ٹھہرتے اور اُس سے باتیں کرتے تو آپ کی اُمّت نصرانی ہو جاتی۔ اور وہ عورت دُنیا تھی اگر آپ اُسے جواب دیتے یا وہاں ٹھہرتے تو آپ کی اُمّت دُنیا کو آخرت پر ترجیح دے کر گمراہ ہو جاتی۔ اللہ اکبر!
ﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
علامہ منیر احمد یوسفی
اسریٰ کے معنی رات کو لے جانے یا چلانے کے ہیں چونکہ نبی کریم کا یہ حیرت انگیز معجزانہ سفر رات کو ہوا تھا اِس لئے اِس کو اسراءکہتے ہیں اور قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اِس کو اِسی لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سُبحَانَ الَّذِی اَسرٰی بِعَبدِہ لَیلًا ”یعنی پاک ہے وہ ذات جو اپنے (محبوب) بندے (حضرت محمد مصطفی ﷺ) کو لے گیا۔“
معراج عروج سے نکلا ہے جس کے معنی اُوپر چڑھنا کے ہیں۔ چونکہ اَحادیث مبارکہ میں آپ سے’ عُرِجَ لِی مجھ کو اوپر چڑھایا گیا ‘ مروی ہے۔ اِس لئے اِس کا نام معراج ہے۔
آیتِ مبارکہ میں تین کلمات قابلِ توجہ ہیں (1) اَسرٰی (2) عَبدِہ اور (3) لَیلًا۔ اَسرٰی رات کو لے جانا اور لَیلًا سے مراد رات ہی کو ہے۔ لَیلًا کا لفظ دو زبر کی وجہ رات کی قلت کو بیان کرتا ہے یعنی رات کے تھوڑے حصّے میں یعنی راتوں رات۔ اِس سیر کے کرانے کا دعویٰ ربِّ ذوالجلال والاکرام کا ہے۔ چونکہ سفر محیر العقول ہے اِس لئے رَبِّ کائنات نے پہلے اپنی تسبیح بیان فرما دی تاکہ پڑھنے‘ سُننے والے کے دِل میں یہ بات اُتر جائے کہ جس ذاتِ برحق نے سیر کرائی ہے۔ وہ ہر قسم کی کمزوری‘ خامی اور نقص سے پاک ہے۔ اُس کے لئے اَیسی سیر راتوں رات کرا دینا ناممکن اور مشکل نہیں۔ صرف مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف جانے آنے کا سفر ڈیڑھ دو ماہ کا تھا۔ لیکن رات کے کچھ حصّے کا دعویٰ اور دعویٰ بھی قادرِ مطلق ربّ ذوالجلال والاکرام کا ہے ۔ پھر یہ سفر روح کا نہیں یا خواب کا واقعہ نہیں بلکہ روح مع الجسد اور بیداری کا واقعہ ہے۔ بیان شدہ تینوں کلمات میں اَسرٰی بِعَبدِہ اور لَیلًا روح مع الجسد بیداری میں سیر کی تائید قرآنِ حکیم سے ہی ہو جاتی ہے۔ اِس کے لئے سورة الدخان کی آیت مبارک نمبر 23‘ سورة طٰہٰ کی آیت نمبر 77‘ سورة الشعراءکی آیت نمبر 52‘ سورة ھود کی آیت نمبر 81 اور سورة الحجر کی آیت مبارک نمبر 65 دیکھی جا سکتی ہے۔
اِن آیاتِ مبارکہ میں حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت لوطؑ کا واقعہ بیان ہے۔ سورة الدخان میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ سے اِرشاد فرماتا ہے فَاَسرِ بِعِبَادِی لَیلًا اِنَّکُم مَّتَّبَعُونَo ”کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چلے جائیں بے شک آپ کا پیچھا کیا جائے گا۔“ اِسی طرح سورة الشعراءکی آیت 52 میں ہے وَاَوحَینَا اِلٰی مُوسٰی اَن اَسرِ بِعِبَادِی اِنَّکُم مُّتَّبَعُونَo ”اور ہم نے موسیٰ ؑ کو وحی فرمائی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چلے جائیں بے شک آپ کا پیچھا کیا جائے گا۔“ حضرت لوطؑ کو سورہ ھود کی آیت نمبر 81 اور سورة الحجر کی آیت 65 میں فرمایا گیا فَاَسرِ بِاَھلِکَ بِقِطعٍ مِّنَ اللَّیلِ ”تو اپنے گھر والوں کو راتوں رات لے کر چلے جائیے۔“
اِن آیاتِ بینات اور واقعات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب اَسرٰی‘ بِعَبدِہ‘ لَیلًا یا اسری اھلک اور لیل کا ذکر آئے تو واقعہ جاگتے‘ بیداری اور روح مع الجسد کا ہوتا ہے۔
اگر معراج شریف کا واقعہ روح کی سیر یا خواب کا واقعہ ہوتا یعنی رسولِ کریم فرماتے کہ اللہ (تعالیٰ) نے میری روح کو سیر کرائی ہے یا مجھے خواب میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف اور پھر آسمانوں کی سیر کرائی اور رات کے کچھ حصہ میں سب کچھ رونما ہوا تو کوئی شخص بھی اِنکار نہ کرتا۔ دعویٰ بیداری کی حالت میں سیر کرانے کا ہے۔ اِس لئے عظمت رَبِّ ذوالجلال والاکرام اور مقام مصطفی کے منکروں نے جھگڑا کھڑا کر دیا۔ لیکن قدرت کا کمال دیکھئے کہ اگر ایک طرف منکرین‘ اِنکار پر مصر ہیں تو دوسری طرف نبی کریم کے محسن حضرت صدیق اکبرؓ واقعہ کی تصدیق کر رہے اور فرما رہے کہ میں تو اِس سے بھی بڑی باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور اللہ کی طرف سے لقب ”صدیق“ حاصل کر رہے ہیں۔
مقام غور ہے‘ رَبِّ ذوالجلال والاکرام نے اپنی کتاب لاریب کی سورة النمل میں حضرت سلیمانؑ کے ایک اُمّتی کا واقعہ بیان فرمایا ہے جس نے آنکھ جھپکنے سے پہلے 3000 (تین ہزار میل) یعنی چار ہزار پانچ کلو میٹر کا سفر طے کر کے ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں حاضر کر دیا۔
جب خالقِ کائنات کے عظیم بندوں کا یہ کمال ہے جو ربِّ کی دی ہوئی طاقت اور فضل سے اِتنا لمبا سفر آنکھ جھپکنے میں طے کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو تمام اور لامحدود طاقتوں کا مالک ہے اُس نے رات کے کچھ حصّے میں اِتنا لمبا سفر طے کروا دیا کہ عقل اِنسانی حیرت میں مبتلا ہے۔ رَبِّ ذوالجلال نے آنکھوں سے سب پردے ہٹا دئیے‘ دنیاوی قوانین منسوخ فرما دئیے مکان و زمان کی قیود کی تمام فرضی بیڑیاں کاٹ دیں اور آسمان و زمین کے مخفی مناظر بے حجابانہ آپ کے سامنے آ جاتے ہیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم نے فرمایا کہ معراج کی رات جب میں (حضرت) موسیٰ ؑ کی قبر (منور) سے گزرا تو میں نے (حضرت) موسیٰ ؑ کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا
آپ نے اِس سفر معراج میں کیا کچھ ملاحظہ فرمایا چند واقعات بطور عبرت و درس قارئین کرام کی نذر کئے جاتے ہیں۔
زبانیں اور ہونٹ کاٹنے والے :
حضرت ابوہریرہ اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی¿ کریم نے ایک جماعت کو ملاحظہ فرمایا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں (اور عجیب بات تو یہ ہے کہ) اُدھر کٹ رہے ہیں پھر اُسی وقت دوبارہ صحیح ہو جاتے ہیں پھر کٹتے ہیں پھر صحیح ہو جاتے ہیں۔ اِسی طرح برابر یہ سلسلہ جاری ہے۔ پوچھا یہ کون لوگ ہیں جن کی زبانیں اور ہونٹ کاٹے جا رہے ہیں؟ عرض کیا گیا یہ وہ فتنہ پرور واعظین، مدرسین اور مقررین ہیں ( جو کہتے کچھ تھے کرتے کچھ تھے)۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا میں نے معراج کی رات لوگوں کو دیکھا کہ آگ کی قینچیوں سے اپنے ہونٹ کاٹ رہے تھے۔ میں نے حضرت جبرائیلؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ اُنہوں نے عرض کیا آپ کی اُمّت کے مقررین ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے تھے اور اپنے آپ کو بھلا دیتے تھے اور وہ کتاب پڑھتے تھے کیا اُن کو عقل نہیں۔
سود خوروں کا اَنجام:
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں ‘ رسول کریم نے فرمایا کہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھڑوں جیسے ہیں۔ جب وہ اُٹھنا چاہتے ہیں تو گر پڑتے ہیں اور مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ قیامت قائم نہ ہو۔ یہ لوگ فرعونی جانوروں سے روندے جاتے ہیں اور بارگاہِ رب میں آہ و زاری کر رہے ہیں۔ میں نے (حضرت) جبرائیلؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ اُنہوں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ یہ سود خور لوگ ہیں اور سود خور اُن لوگوں کی طرح ہی کھڑے ہوں گے جنہیں شیطان نے پاگل بنا رکھا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہم معراج کی رات اُس قوم پر پہنچے جس کے پیٹ کوٹھڑیوں کی طرح تھے جن میں سانپ تھے جو پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے۔ نبی¿ کریم فرماتے ہیں ہم نے (حضرت جبرائیلؑ سے) فرمایا یہ لوگ کون ہیں؟ (حضرت جبرائیلؑ ؑنے) عرض کیا یہ سود خور ہیں۔
اُلٹی لٹکی ہوئی عورتیں:
نبی اکرم فرماتے ہیں کہ کچھ دُور چلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ عورتیں سینوں سے بندھی اُلٹی لٹکی ہوئی ہیں‘ ہائے وائے کر رہی ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون عورتیں ہیں؟ تو بتایا گیا یہ بدکار عورتیں ہیں (اور اپنی اَولاد کو قتل کرتی تھیں)۔
غیبت کرنے والے:
پیارے کریم آقا فرماتے ہیں‘ میں نے کچھ لوگ دیکھے جن کے پہلوﺅں سے گوشت کاٹ کاٹ کر فرشتے اُنہیں کھلا رہے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ جس طرح دُنیا میں تم نے اپنے (مُردہ) بھائیوں کا گوشت کھایا اِسی طرح اَب یہ گوشت بھی کھاﺅ۔ میں نے پوچھا! اے جبرائیل ؑیہ کون لوگ ہیں؟ (جو اپنا ہی گوشت کھانے پر مجبور کئے جا رہے ہیں) عرض کیا یا رسول اللہ یہ عیب جو اور آوازیں کسنے والے لوگ ہیں۔
آبرو ریزی کرنے والے:
حضرت انسؓ سے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم نے فرمایا جب مجھے میرے اللہ کی طرف عروج دیا گیا تو میں ایک قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن نحاس یعنی تانبے کے تھے وہ اُن ناخنوں سے اپنے سینوں اور چہروں کو خراش رہے تھے۔ میں نے پوچھا! اے جبرائیلؑ یہ کون لوگ ہیں؟ (حضرت) جبرائیلؑ نے عرض کیا‘ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی آبرو ریزی کرنے اور غیبت کے در پے رہتے تھے۔
یتیم کا مال کھانے والے:
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ حضور نے فرمایا: میں نے کچھ قومیں دیکھیں جن کے ہونٹ مثل اُونٹ کے ہیں اور اُن کے منہ کھولے جاتے ہیں اور بدبودار گوشت اُن کے منہ میں ڈالا جاتا ہے اور پاخانے کے راستے سے نکل جاتا ہے وہ چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ میں نے سُنا وہ اللہ سے چیخ کر فریاد کرتے ہیں۔ حضرت جبرائیلؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے تھے (اور اپنے مال سے صدقہ نہ دیتے تھے) اب یہ آگ کھاتے ہیں اور عنقریب دوزخ میں پہنچیں گے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا شب معراج میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا اُن کے ہونٹ اُونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے۔ بالائی لب سکڑا ہوا دونوں نتھنوں پر تھا اور نچلا ہونٹ سینہ پر لٹکا ہوا۔ جہنم کے کارندے اُن کے منہ میں دوزخ کے اَنگارے اور پتھر بھر رہے تھے (حضور فرماتے ہیں) میں نے پوچھا‘ اے جبرائیلؑ یہ کون لوگ ہیں؟ (حضرت) جبرائیلؑ نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال بے جا طور پر کھاتے تھے۔ (مظہری جلد 2 ص 21)
بے نمازی کا حشر:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ حضور کا گزر ایک اَیسی قوم پر ہوا۔ جن کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے تھے۔ بار بار کچلے جاتے پھر صحیح ہو جاتے تھے۔ یہ عمل اِسی طرح بار بار ہو رہا تھا سر کچلے جاتے تھے‘ ٹھیک ہو جاتے تھے۔ ایک پَل کے لئے بھی اُنہیں مہلت نہ دی جاتی تھی۔ سرکار کائنات فرماتے ہیں ،میں نے حضرت جبرائیلؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرائیلؑ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔
زکوة نہ دینے والے :
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کریم فرماتے ہیں کہ میں نے کچھ لوگ دیکھے جن کے آگے پیچھے پرانے کپڑے لٹک رہے ہیں اور اُونٹوں اور جنگلی جانوروں کی طرح کانٹوں والے جہنمی درخت کھا رہے ہیں۔ جہنم کے پتھر اور اَنگارے نگل رہے ہیں۔ میں نے جبرائیلؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ تو حضرت جبرائیلؑ نے عرض کیا یارسول اللہ یہ لوگ اپنے مال کی زکوٰة نہیں دیتے تھے۔ اللہ نے اِن پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔
پتھرکے سوراخ سے بیل کا نکلنا:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں‘ حبیب کبریا نے دیکھا کہ ایک بہت بھاری بھر کم قوی ہیکل بیل ایک پتھر کے چھوٹے سے سوراخ سے نکل رہا ہے‘ جب باہر آ جاتا ہے پھر اُسی سوراخ میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے مگر ناکام رہتا ہے۔ پوچھا اے جبرائیلؑ یہ کیا ہے؟ عرض کیا یا رسول اللہ! یہ اُس شخص کی مثال ہے جو منہ سے بڑی بات نکالتا تھا پھر خود ہی نادم ہو جاتا تھا اور چاہتا تھا کہ میری بات واپس لوٹ آئے لیکن اَیسا نہیں ہوتا۔
اَمانتوں کا بوجھ:
نبی مکرم کا ایک شخص پر گزر ہوا۔ اُس نے بہت بڑا گٹھا جمع کیا ہوا تھا مگر اُس کو اُٹھا نہیں سکتا تھا پھر بھی اور اِضافہ کر رہا تھا۔ پوچھا اے جبرائیلؑ یہ کیا ہے؟ عرض کیا آپ کی اُمّت سے وہ شخص ہے جس کے پاس لوگوں کی اَمانتیں ہیں جن کو وہ اَدا نہیں کر سکتا۔ مگر اِس کے باوجود اَمانتیں لے رہا ہے اور اپنے اُوپر حقوق (کا بوجھ) چڑھا اور بڑھا رہا ہے۔
راستے کی لکڑی:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم نے فرمایا۔ میں نے دورانِ سفرِ معراج ایک لکڑی کو دیکھا کہ ہر گزرنے والے کے کپڑے پھاڑ دیتی ہے اور ہر چیز کو زخمی کر دیتی ہے۔ پوچھا یہ کیا ہے؟ کہا گیا یہ آپ نے اُن کی مثال دیکھی ہے جو راستے روک کر بیٹھتے ہیں پھر اِس آیتِ مبارک کو پڑھا: وَلَا تَق±عُدُو±ا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُو±عَدُو±نَ۔۔۔۔ (الاعراف: 86) ”اور ہر راستہ میں یوں نہ بیٹھو کہ ڈراﺅ۔“
علاوہ ازیں بڑے حسین منظر بھی دیکھے جنت اور دوزخ کو بھی ملاحظہ فرمایا۔
کھیتی والی قوم :
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں‘ سیدالانبیائ نے فرمایا میں نے ایک قوم کو دیکھا جو ایک روز کھیتی بوتی ہے اور دوسرے دن کھیتی کاٹتی ہے جونہی کاٹ کر فارغ ہوتی ہے تونئی کھیتی بڑھ جاتی ہے۔ حضرت جبرائیلؑ سے نبی کریم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کیا یا حبیب اللہ یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں جن کی نیکیاں ختم ہی نہیں ہوتیں۔ سات سات سو گنا تک بڑھتی ہیں اور جو خرچ کریں اُس کا بدلہ پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہترین رازق ہے۔
فرعون کی لڑکی کی مشاطہ کا واقعہ :
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضور فرماتے ہیں ایک مقام سے مجھے نہایت ہی اعلیٰ خوشبو کی مہک آنے لگی۔ میں نے کہا یہ کیسی خوشبو ہے؟ جواب ملا کہ فرعون کی بیٹی کی کنگھی کرنے والی (خادمہ) اور اُس کی اَولاد (کے محل) کی ہے‘ عرض کیا‘ اُس کے ہاتھ سے کنگھی گری تو اُس نے کہا بسم اللہ۔ فرعون کی بیٹی نے کہا اللہ تو میرا باپ ہے۔ اُس (خادمہ) نے جواب دیا کہ میرا اور تیرا اور تیرے باپ کا پروردگار اللہ ہے۔ فرعون کی بیٹی نے کہا کیا میرے باپ کے علاوہ تیرا کوئی اور ربّ ہے۔ اُس نے کہا میرا اور تیرا اور تیرے باپ کا ربّ ہے۔ اُس نے اپنے باپ کو ساری بات سُنائی۔ فرعون نے اُس (خادمہ) کو بلوایا اور کہا کیا تم میرے سوا کسی اور کو ربّ مانتی ہو۔ کہا ہاں میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے۔ فرعون نے اُسی وقت حکم دیا کہ تانبے کی گائے کو آگ میں تپایا جائے‘ جب وہ بالکل آگ جیسی ہو جائے تو پھر اِسے اور اِس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اُس میں ڈال دیا جائے۔ اُس مومنہ عورت نے فرعون سے کہا میری ایک درخواست ہے اُس نے کہا کیا ہے؟ اُس نے کہا میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک جگہ ڈال دینا۔ فرعون نے کہا اَچھا تیرے کچھ حقوق ہمارے ذمہ ہیں اِس لئے یہ منظور ہے۔ بعد ازیں فرعون نے حکم دیا کہ ایک ایک کر کے اِس کے بچوں کو آگ کی طرح تپتی ہوئی گائے میں ڈال دو۔ جب دُودھ پیتے بچے کی باری آئی (فرعون کے سپاہیوں نے جب اُس بچے کو چھینا) تو وہ گھبرائی تو اللہ تعالیٰ نے دُودھ پیتے بچے کو گویائی عطا فرمائی۔ اُس نے (اپنی ماں سے) کہا امی جان اَفسوس نہ کریں اور نہ ہی پس و پیش کریں آپ حق پر ہیں۔ وہ لوگ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں جو روپے پیسے کی خاطر بے دین مشرک اور کافر ہو جاتے ہیں۔
آواز نعالِ حضرت بلالؓ :
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے‘ اِس کو حضرت اِمام احمد بن حنبلؒ نے روایت کیا کہ سرکارِ کائنات نے فرمایا جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں (حضرت) بلالؓ کے پاﺅں کی آواز کو سُنا۔ (حضرت) جبرائیلؑ سے پوچھا تو اُنہوں نے عرض کیا یہ آپ کے مو¿ذن (حضرت) بلالؓ ہیں۔ جب رسولِ کریم واپس تشریف لائے تو فرمایا کہ فلاح پائی (حضرت) بلالؓ نے۔ اور حضرت بلالؓ سے پوچھا اے بلالؓ ہم نے جنت میں تیرے پیروں کی چاپوں کی آواز سُنی ہے توُ کیا عمل کرتا ہے؟ عرض کیا‘ یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں مجھے تو کوئی بات معلوم نہیں۔ سوائے اِس کے کہ جب بھی میں نے وضو کیا تو دو رکعت نماز تحیتہ الوضو پڑھی (سوائے مکروہ اوقات کے)۔
جنت کی حسین وادی:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آقا ایک وادی میں پہنچے جہاں نہایت نفیس‘ معطر‘ خوشگوار ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور نہایت راحت و سکون کی مبارک آوازیں آ رہی تھیں آپ نے سُن کر فرمایا جبرائیلؑ یہ کیسی خوشگوار‘ معطر‘ مبارک‘ راحت و سکون والی آوازیں ہیں۔ عرض کیا اے محبوب کائنات یہ جنت کی آوازیں ہیں‘ وہ کہہ رہی ہیں کہ اے بار ی تعالیٰ میرے ساتھ تو نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا فرما۔ میرے بالا خانے میں موتی‘ مونگے‘ سونا‘ چاندی‘ جام‘ کٹورے‘ شہد‘ پانی‘ دودھ‘ شراب طہور وغیرہ وغیرہ نعمتیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ اسے ربّ کائنات کی طرف سے جواب ملا کہ ہر ایک وہ مسلمان جو مجھے اور میرے رسولوں ؑ کو مانتا ہے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا اور نہ ہی میرے برابر کسی کو سمجھتا ہے وہ سب تجھ میں داخل کئے جائیں گے۔
پھر فرمایا ، اے جنت سُن جس کے دل میں میرا خوف ہے وہ ہر خوف و خطر سے محفوظ ہے۔ مجھ سے سوال کرنے والا محروم نہیں رہتا۔ مجھے قرض دینے والا بدلہ پاتا ہے جو میرے اوپر بھروسہ کرتا ہے اسے خوب عطا فرماتا ہوں۔ کفالت کرتا ہوں ‘ میں سچا معبود واحد ہوں میرے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں۔ میرے وعدے غلط نہیں ہوا کرتے۔ مومن نجات یافتہ ہے (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) میں بابرکت اور سب سے بہتر خالق ہوں۔یہ سُن کر جنت نے کہا بس میں خوش ہوں۔
دوزخ کی خوفناک وادی :
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ کہ سیّد کونین نے ایک اور وادی دیکھی جہاں سے نہایت بھیانک اور خوفناک آوازیں آ رہی تھیں۔ اور سخت بدبو آ رہی تھی۔ آپ نے اس کے بارے میں (حضرت) جبرائیلؑ سے پوچھا اُنہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ جہنم کی آواز ہے جو یہ کہہ رہی ہے مجھے وہ دے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ میرے طوق و زنجیریں‘ میرے شعلے‘ تھوہر لہو اور پیپ‘ میرے عذاب اور سزا کے سامان بہت وافر ہو گئے ہیں۔ میرا گہراﺅ بہت زیادہ ہے میری آگ بہت تیز ہے۔ مجھے وہ عنایت فرما جس کا وعدہ مجھ سے ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہر مشرک و کافر‘ خبیث‘ منکر‘ بے اِیمان مرد عورت میرے لئے ہے۔ یہ سن کر جہنم نے اپنی رضامندی ظاہر کی۔
اگر آپ جواب عنایت فرماتے تو!
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ابھی میں براق پر سوار ہو کر چلا ہی تھا تو مجھے کسی پکارنے والے نے دائیں طرف سے پکارا: یا محمد انظرنی اسلک یا محمد انظرنی اسلک یا محمد انظرنی اسلک (تین مرتبہ یہ کہا اے محمد مصطفی میری طرف دیکھئے میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں)۔ آپ فرماتے ہیں‘ نہ میں نے جواب دیا نہ ہی میں ٹھہرا۔ پھر جب تھوڑا آگے بڑھا تو بائیں طرف سے کسی پکارنے والے نے اِسی طرح پکارا: ”اے محمد میری طرف دیکھئے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔“ سرکار کائنات فرماتے ہیں نہ میں نے اُس کی طرف دیکھا اور نہ میں ٹھہرا۔ پھر کچھ آگے گیا تو ایک عورت دُنیا بھر کی زینت کئے ہوئے بازو کھولے کھڑی ہے۔ اُس نے مجھے اِسی طرح آواز دی: یا محمد انظرنی اسلکلیکن میں نے نہ تو اس کی طرف توجہ فرمائی اور نہ ہی وہاں ٹھہرا۔ جب بیت المقدس پہنچے تو حضرت جبرائیلؑ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ! آپ متفکر کیوں ہیں؟ فرمایا راستے والے واقعات سے۔ عرض کیا‘ یا رسول اللہ پہلا شخص تو یہودی تھا اگر آپ اُس کا جواب فرما دیتے تو آپ کی اُمّت یہودی ہو جاتی۔ دوسرا نصرانیوں کا دعوت دینے والا تھا۔ اگر آپ وہاں ٹھہرتے اور اُس سے باتیں کرتے تو آپ کی اُمّت نصرانی ہو جاتی۔ اور وہ عورت دُنیا تھی اگر آپ اُسے جواب دیتے یا وہاں ٹھہرتے تو آپ کی اُمّت دُنیا کو آخرت پر ترجیح دے کر گمراہ ہو جاتی۔ اللہ اکبر!
ﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
Source:www.nawaiwaqt.com.pk
No comments:
Post a Comment