واقعۂ معراج اور عظمت آدم
علامہ محمد الیاس عطارقادری
رجب کی ستائیسویں تاریخ کو ہمارے
پیارے نبی حضرت محمد مصطفی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو معراج کا شرف عطا
کیا گیا۔ یہ واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل اس طرح پیش آیا کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ام ہانیؓ کے گھر اور ایک روایت کے مطابق حطیم
کعبہ میں آرام فرمارہے تھے کہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے آکر تاجدار
کون ومکاں کو جگایا۔ حضور اُٹھے تو جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی یارسول
اللہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی ملاقات کے لئے بلایا ہے۔
آپ چلنے کے لئے تیار ہوئے تو جبرئیل علیہ
ا لسلام نے آپ کا سینئہ اقدس چاک کیا اور قلب اطہر کو نکال کر نور و حکمت کے خزانوں سے بھردیا گیا پھر حضور کی بارگاہ میں ایک سواری پیش کی جس کا رنگ چمکدار اور سفید اور اس کا نام براق تھا۔ جب تاجدار کائنات کو براق پر سوار کیا گیا تو وہ براق اس سعادت عظمیٰ پر وجد میں آگیا۔ اس پر جبرائیل امین علیہ اسلام نے اس سواری سے فرمایا: رُک جا! اللہ کی عزت کی قسم تجھ پر جو سوار بیٹھا ہے آج تک تجھ پر ایسا سوار نہیں بیٹھا۔ پھر آپ بیت المقدس کی طرف لے جایا گیا۔
براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کاقدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی۔ دوران سفر آپ کا گزر حضرت موسی ٰ علیہ السلام کی قبر انور کے قریب سے ہوا جہاں آپ نے دیکھا کہ وہ اپنی قبر انور پر کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر جب آپ کا یہ مقدس قافلہ بیت القدس پہنچا تو دروازہ آپ کے استقبال کے لئے کھلا ہوا تھا۔ پھر آپ بیت القدس میں داخل ہوئے تو تمام انبیائے کرام علہیم السلام آپ کی تعظیم، اکرام اور احترام میں منتظر تھے۔ اُنہیں آپ کی امامت میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے بعد حضرت جبرئیل علیہ اسلام نے شراب اور دودھ کے دو پیالے آپ کے سامنے پیش کیئے آپ نے دودھ کا پیالہ اُٹھا لیا۔ یہ دیکھ کر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ آپ نے فطرت کو پسند فرمایا اگر آپ شراب کا پیالہ اُٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔ پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ کو ساتھ لے کر آسمان پر چڑھے پہلے آسمان میں حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ و حضرت عیسیٰ، تیسرے آسمان میں حضرت یوسف، چوتھے آسمان میں حضرت ادریس، پانچویں آسمان میں حضرت ہارون، چھٹے آسمان میں حضرت موسیٰ اور ساتویں پر حضرت ابراہیم علیہم السلام سے ملاقات ہوئی۔ بوقت ملاقات ہر پیغمبر نے ”خوش آمدید!!!! اے پیغمبر صالح!“ کہہ کر آپ کا استقبال کیا، لہذا حضور جب سفر معراج کی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے تو جبریل اور براق ساتھ نہ تھے اللہ عزوجل نے اپنے مہمان عرش کی سواری کے لئے ایک سبز رنگ کی ملکوتی اور نورانی تخت بھیج دیا۔ اس تخت کانام ”رفرف“ تھا۔جس پر سوار ہوکر آپ ایک عالم نور میں آگئے انوار و تجلیات الہی پُر فشاں تھے۔ اللہ رب العزت کی ذاتی اور صفاتی تجلیات سے بھرپور عالم لامکاں کے جلوے ہر سو جوہ ریز تھے۔ یہاں تک آپ مقام قاب قوسیں پر پہنچ گئے جس کی طرف قرآن پاک اشارہ کرتا ہے
آپ چلنے کے لئے تیار ہوئے تو جبرئیل علیہ
ا لسلام نے آپ کا سینئہ اقدس چاک کیا اور قلب اطہر کو نکال کر نور و حکمت کے خزانوں سے بھردیا گیا پھر حضور کی بارگاہ میں ایک سواری پیش کی جس کا رنگ چمکدار اور سفید اور اس کا نام براق تھا۔ جب تاجدار کائنات کو براق پر سوار کیا گیا تو وہ براق اس سعادت عظمیٰ پر وجد میں آگیا۔ اس پر جبرائیل امین علیہ اسلام نے اس سواری سے فرمایا: رُک جا! اللہ کی عزت کی قسم تجھ پر جو سوار بیٹھا ہے آج تک تجھ پر ایسا سوار نہیں بیٹھا۔ پھر آپ بیت المقدس کی طرف لے جایا گیا۔
براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کاقدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی۔ دوران سفر آپ کا گزر حضرت موسی ٰ علیہ السلام کی قبر انور کے قریب سے ہوا جہاں آپ نے دیکھا کہ وہ اپنی قبر انور پر کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر جب آپ کا یہ مقدس قافلہ بیت القدس پہنچا تو دروازہ آپ کے استقبال کے لئے کھلا ہوا تھا۔ پھر آپ بیت القدس میں داخل ہوئے تو تمام انبیائے کرام علہیم السلام آپ کی تعظیم، اکرام اور احترام میں منتظر تھے۔ اُنہیں آپ کی امامت میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے بعد حضرت جبرئیل علیہ اسلام نے شراب اور دودھ کے دو پیالے آپ کے سامنے پیش کیئے آپ نے دودھ کا پیالہ اُٹھا لیا۔ یہ دیکھ کر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ آپ نے فطرت کو پسند فرمایا اگر آپ شراب کا پیالہ اُٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔ پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ کو ساتھ لے کر آسمان پر چڑھے پہلے آسمان میں حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ و حضرت عیسیٰ، تیسرے آسمان میں حضرت یوسف، چوتھے آسمان میں حضرت ادریس، پانچویں آسمان میں حضرت ہارون، چھٹے آسمان میں حضرت موسیٰ اور ساتویں پر حضرت ابراہیم علیہم السلام سے ملاقات ہوئی۔ بوقت ملاقات ہر پیغمبر نے ”خوش آمدید!!!! اے پیغمبر صالح!“ کہہ کر آپ کا استقبال کیا، لہذا حضور جب سفر معراج کی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے تو جبریل اور براق ساتھ نہ تھے اللہ عزوجل نے اپنے مہمان عرش کی سواری کے لئے ایک سبز رنگ کی ملکوتی اور نورانی تخت بھیج دیا۔ اس تخت کانام ”رفرف“ تھا۔جس پر سوار ہوکر آپ ایک عالم نور میں آگئے انوار و تجلیات الہی پُر فشاں تھے۔ اللہ رب العزت کی ذاتی اور صفاتی تجلیات سے بھرپور عالم لامکاں کے جلوے ہر سو جوہ ریز تھے۔ یہاں تک آپ مقام قاب قوسیں پر پہنچ گئے جس کی طرف قرآن پاک اشارہ کرتا ہے
ترجمہ کنزلایمان: ”پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا، پھر خوب اُتر آیا۔ تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم۔“
پھر
محبوب و محب میں کیا کیا باتیں ہوئیں۔ کسی کو کچھ خبر نہیں، اس کو قرآن
پاک نے یوں بیان کیا ترجمہ کنزلایمان: ”اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی
فرمائی۔“
ہاں البتہ رسول اکرم نے یہ بیان فرمایا کہ جب ملاقات ہوئی
تو اللہ عزوجل نے فرمایا: یعنی: ”اے نبی! تمہارے اوپر سلامتی ہو اور اللہ
کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں۔“ رحمت کے اس پیغام پر میں نے جواب میں
عرض کیا: سلام ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر ۔
نیز بارگاہ
الہی سے بے شمار عطیات کے علاوہ ایک خاص انعام مرحمت ہوا۔ وہ انعام تھا
پچاس نمازوں کا۔ جب آپ ان خداوندی عطیات کو لے کر واپس آئے تو حضرت موسی
علیہ السلام نے آپ سے عرض کیا کہ آپ کی امت سے ان پچاس نمازوں کا بار نہ
اُٹھ سکے گا لہذا آپ واپس تشریف لے جائیے اور اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی
درخواست کیجئے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے چند بار آپ
بارگاہ الہی میں آتے جاتے اور عرض پرداز ہوتے رہتے یہاں تک کہ صرف پانچ وقت
نمازیں رہ گئیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب سے فرمایا کہ میرا قول نہیں
بدلتا۔ اے محبوب! آپ کی امت کے لئے نمازیں تو پانچ ہوںگی مگر میں آپ کی امت
کوان پانچ نمازوں پر پچاس نمازوں کا اجروثواب عطا کر دوں گا۔
معراج
میں جس تحفہ خدا کو رسول لے کر امت کے پاس آئے آج اس تحفہ نے بھلا رکھا ہے
کاش! میرے آقا کاہر امتی نمازی بن جائے تاکہ قیامت میں اللہ و رسول عزوجل
وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میںمنہ دکھانے کے قابل ہوجائیں
دعوت اسلامی پوری دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ”مجھے اپنی اور ساری دنیا کے
لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے“
آپ عالم ملکوت کی اچھی طرح سیر
فرما کر اور آیات الہیہ کا معاینہ و مشاہدہ فرما کر آسمان سے زمین پر تشریف
لائے اور بیت المقدس میں داخل ہوئے اور براق پر سوار ہوکر مکہ مکرمہ کے
لئے روانہ ہوئے۔ راستہ میں آپنے بیت المقدس سے مکہ تک کی تمام منزلوں اور
قریش کے قافلہ کو بھی دیکھا۔ ان تمام مراحل کے طے ہونے کے بعد آپ مسجد حرام
میںپہنچے دوسرے دن جب آپنے قریش کے سامنے معراج کا تذکرہ فرمایا تو رو¿
سائے قریش اور مشرکین و کفار کو سخت تعجب ہوا کیونکہ معجزہ معراج کے ظہور
سے ایوان کفر و شرک کا لرز اُٹھنا ایک فطری امر تھا۔ چنانچہ ہر طرف شور مچ
گیا، فتنہ و شر کے طوفان اُٹھ کھڑے ہوئے۔ شہر مکے کے گلی کوچوں میںایک
غلغلہ پیدا ہوگیا کہ محمد مصطفی نے یہ کیا دعویٰ کردیا! ابو جہل بھاگا
بھاگا صدیق اکبرؓ کے پاس گیا کہ آج میں پوچھتا ہوں کہ تو اس نبی کے دعوے کی
صداقت پر ایمان لاتا ہے۔ اب بتا تو کیا کہتا ہے کہ آج تیرے دوست نے ایک
ایسا دعویٰ کیا ہے کہ کبھی اُسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوگا۔ جب صدیق
اکبرؓ نے ابو جہل سے کی زبانی دعویٰ سنا تو مسکر کر ارشاد فرمایا کہ میں تو
محض حضور کی زبان اقدس سے سن کر خالق کائنات کو مان چکا ہوں۔ یہ سب باتیں
تو اس سے بہت کم درجہ کی ہیں۔ حضرت صدیقؓ نے آپ کی بارگاہ سے تصدیق کئے
بغیر سفر معراج کی تصدیق کردی۔
ﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺ
صلی اللہ علیہ علیہ وآلہ وسلم
No comments:
Post a Comment